بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکا دے کر ملازمت کے امیدواروں سے رقم حاصل کرنے والی جعلی کمپنی کا حکم


سوال

نیشنل ہائی وے پر   ایک کمپنی ہے، جس میں ملازمت پانے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے کمپنی کی طرف سے ملازم ( جو بعد میں ملازم بنے گا)  کو ایک میسج آتا ہے کہ آپ اس کمپنی میں ملازمت کریں، اور مختلف ڈپارٹمنٹس کا نام لے کر بتایا جاتا ہے کہ ان ان ڈپارٹمنٹس میں آپ ملازمت کر سکتےہیں،  اس مرحلہ کے بعد جب ملازم رابطہ کرتا ہے تو کمپنی والے انٹرویو اور ٹیسٹ کے لیےبلاتے ہیں اور انٹرویو اور ٹیسٹ میں تمام حصہ لینے والوں کو کامیاب قرار دیتے ہیں، پھر ان سب کو کہتے ہیں کہ اب آپ کو 5 دن کی ٹریننگ لینی ہے جس کے لیے آپ کو 2300 روپے فیس ادا کرنی ہو گی، جو فیس ادا نہیں کرتا اس کو نکال دیتے ہیں اور جو فیس دیتے ہیں ان کو ٹریننگ کے نام پر کچھ فلمیں دکھاتے ہیں،  جس میں یہ ہوتا ہے کہ  مختلف سینئر لوگوں نے اس کمپنی میں کس طرح ترقی کی، پھر اس کے بعد یہ لوگ ملازمین کو کہتے ہیں کہ آپ 37500 روپے جمع کرائیں ، اس کے بعد آپ کمپنی میں خریداری بھی کر سکیں گے محدود مقدار میں،  اور آپ کو ملازمت بھی مل جائے گی، اگر کوئی جمع نہیں کراتا تو اس کو نکال دیتے ہیں اور اگر کوئی جمع کراتا ہے تو اس کو کمپنی میں ملازمت مل جاتی ہے اور ماہانہ تنخواہ شروع ہو جاتی ہے، لیکن کام جو پہلے بتایا ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا یعنی جس ڈپارٹمنٹ میں ملازم ملازمت کرنا چاہتاہے اس میں ملازمت نہیں ہوتی،  بلکہ کام یہ ہوتا ہے کہ یہ ملازم اب مزید لوگوں کو اس طرح کا دھوکہ اور لالچ دے کر کمپنی میں لائے، تاکہ ان لوگوں سے رقم حاصل کی جاسکے، جو جتنا زیادہ لوگوں کو لالچ دے کر کمپنی میں لائے گااس کی اتنی جلدی ترقی ہوگی اور تنخواہ بڑھے گی بصورتِ دیگر تنخواہ وہی رہے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کاکاروبار کرنا اور اس میں ملازمت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے تو مذکورہ کمپنی  کاروبار کے نا م پر لوگوں کے ساتھ  دھوکا  اور فراڈ کر رہی ہے، تو ایسی صورت میں اس کمپنی کا کام سراسر ناجائز اور حرام ہے، مقتدر اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح  کے دھوکہ باز  افراد کے خلاف کاروائی کریں، تاکہ عوام ان شر سے محفوظ رہ سکیں۔

نیز کمپنی نے جن افراد کو باقاعدہ ملازمت دے دی ہے ان کے لیے بھی اس کمپنی کے لیے کام کرتے ہوئے مزید لوگوں کو دھوکا  دینا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی ان کو ملنے والی تنخواہ ان کے لیے  حلال ہے۔

صحیحین  میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ   عہد توڑنے والے کے لیے قیامت میں ایک جھنڈا اٹھایا جائے گا اور پکار دیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے، نیز صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ہمیں دھوکا  دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

صحيح البخاری میں ہے:

"عن ابن عمر رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:«إن الغادر يرفع له لواء يوم القيامة، يقال: هذه غدرة فلان بن فلان»".

(‌‌كتاب الأدب، باب ما يدعى الناس بآبائهم، 8/ 41 ط السلطانية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا»".

(كتاب الإيمان،باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «من غشنا فليس منا1/ 99،ط:دار إحياء التراث العربي)

الاشباه والنظائر  میں ہے:

"القاعدة الخامسة: الضرر يزال،أصلها قوله عليه الصلاة والسلام: {لا ضرر ولا ضرار} أخرجه مالك في الموطإ عن عمرو بن يحيى عن أبيه مرسلا، وأخرجه الحاكم في المستدرك والبيهقي والدارقطني من حديث أبي سعيد الخدري، وأخرجه ابن ماجه من حديث ابن عباس وعبادة بن الصامت رضي الله عنهم وفسره في المغرب بأنه لا يضر الرجل أخاه ابتداء ولا جزاء (انتهى). ..‌‌الثالثة: ‌الضرر لا يزال بالضرر وهي مقيدة لقولهم:‌‌ ‌الضرر يزال".

(‌‌الفن الأول: القواعد الكلية،ص: 74-72، ط: دار الکتب العلمية)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل ‌المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي) ولو أخذ بلا شرط يباح 

(قوله مثل الغناء) بالكسر والمد الصوت، وأما المقصور فهو اليسار صحاح (قوله والنوح) البكاء على الميت وتعديد محاسنه (قوله والملاهي) كالمزامير والطبل".

(‌‌كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على ‌المعاصي، 6/ 55، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں