بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکہ دے کر غیر کی زمین بیچنا


سوال

 میرے اور زید کے درمیان بڑے بھائی سے بھی زیادہ پیار محبت اور اعتماد تھا؛ کیوں کہ زید میرا ہم زلف تھا ،اس کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے کے ہر خوشی غم ، دکھ درد میں شریک ہوتے تھے ۔1996 کے آخر یا 1997 کے اوائل میں  ایک دن زید  میرے پاس بہت ہی پریشانی کے عالم میں آئے کے قرض دار بہت تنگ کررہے ہیں ۔ مجھے آج تیس ہزار روپے کی شدید ضرورت ہے، ان کی پریشانی   مجھ سے برداشت  نہیں ہوئی اور تیس ہزار روپے کا بندوبست کردیا اس دوران زید نے کہا کے  میرے مدرسے کہ سامنے میرے    دو پلاٹ ہیں جس کی   قیمت  ساٹھ ہزار روپے ہے اور یہ پلاٹ  انہوں نے   دو ، تین بار مجھے دکھائے    تھے ،آپ مزید  تیس ہزار  مجھے دے دیں اور وہ دونوں پلاٹ  میں آپ کے نام  لیز کردوں گا  ،میں نے مزید تیس ہزار کا بندوبست کرکے ساٹھ ہزار     رقم ادا کردی ، زید نے  لیز کے  لیے مزید دس ہزار مانگے جو میں ادا کردیئے ۔
جب کاغذات دکھائے  تو وہ لیز کے  نہیں  بلکہ  سند ھ گوٹھ  آباد  سکیم کی سند تھی ۔میں نے زید سے کہا  کہ جناب  یہ کاغذات لیز کے نہیں ہیں تو کہا کہ  99 سالہ پکا لیز  ایسا ہی ہوتا ہے ، زید نے کہا چلو پلاٹ دیکھو  ، پلاٹ مدرسے کے پاس تھا  ،جہاں میرا بیٹا زیر تعلیم  تھا  میں نے سوچا بیٹے  سے ملاقات بھی ہوجائے گی ، لیکن زید مدرسے کے بجائے  مجھے دور ایک جنگل میں لے گیا ،جہاں جھوپڑیاں تھی  جو قابضین کا طریقہ واردات ہوتا ہے پہلے جھوپڑیاں ڈالتے ہیں، بعد میں فروخت کرتے ہیں اور کہا یہ دو پلاٹ آپ کے ہیں  ،یہ سوسائٹی ہے، بڑی اچھی جگہ ہے  جو کہ  زید   نے پارٹنروں کے ساتھ  مل کر  قبضہ کی تھی ،  پلاٹ کو دیکھ کر  میں راضی نہیں تھا، صرف خاندانی تعلق، ذاتی شرافت اور لڑائی سے بچنے کے لیے خاموش ہوا  ، دو تین سال کے بعد  زمین  کے مالک نےقابضین کو بھگا کر   فروخت کردی  اس وقت زید نے کہا  میں آپ کو متبادل جگہ دوں گا ، حالانکہ مجھے صرف دکھایا تھا قبضہ  نہیں دیا تھا  ، اب تک زید ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے، جگہ قبضہ کی تھی، کاغذات جعلی ہیں، میں نے  اعتماد کی وجہ سے بیچ میں نہ کوئی گواہ ڈالے اور نہ ہی کوئی تحریر لی ۔ براہ کرم شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ زید پر میرا حق ہے کہ نہیں ؟

یہ تمام کام  اعتماد اور ظاہری دین داری کی وجہ سے ہوئے تھے ،باطن کو تو اللہ جانتا ہے کہ  بندہ سچا ہے یا فراڈی ، کاغذات جعلی ہیں اور زید نے وعدہ کے خلاف  ورزی کی ہے ۔

اب پوچھنا یہ کہ کیاسائل کا زید  پر حق ہے کہ نہیں  ؟اگر فیصلہ رقم میں ہو تو جس پلاٹ کی زید نے  ابتد  ا   میں بات کی تھی  اس پلاٹ کی رقم وصول ہوگی یا قبضہ والے جگہ کی، حالانکہ مدرسے کے پاس  دو پلاٹ  جس کا وعدہ زید نے کیا تھا اب بھی موجود ہیں ؟پلاٹوں کی رقم  1997 کے ریٹ سے ہوگی یا موجودہ ریٹ  سے  ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں زبانی سودے کے بعد زیدنے سائل کو مدرسے کے برابر والے پلاٹ  کے بجائے جنگل والے پلاٹ دکھائے اور سائل نے خاموشی اختیار کی تو بیع(سودا) انہی دوپلاٹوں(جنگل والے) کی ہوئی تھی، پھر مذکورہ دونوں پلاٹس اصل مالکان نے  واپس لے کر  آگے فروخت کردیے  تو اب سائل  زید سے صرف اپنی اصل رقم (ستر ہزار روپے) کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے۔زید سائل کو اس کی رقم واپس نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا باع الرجل مال الغير عندنا يتوقف البيع على إجازة المالك ويشترط لصحة الإجازة قيام العاقدين والمعقود عليه و لايشترط قيام الثمن إن كان من النقود فإن كان من العروض يشترط قيامه أيضا، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب البيوع،الباب الثاني عشر/3/ 152/ط:رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لو مستحقًّا ظهر المبيع ... له على بائعه الرجوعبالثمن الذي له قد دفعا ...

(قوله: فاستحقت) أي الدار وحدها دون ما بناه فيها (قوله: وقيمة البناء مبنيا) أي يقوم مبنيا فيرجع بقيمته لا مقلوعا والمراد بالبناء ما يمكن نقضه وتسليمه كما يأتي فلا يرجع بما أنفق من طين ونحوه ولا بأجرة الباني ونحوه (قوله: على البائع) ثم هذا البائع يرجع على بائعه بالثمن فقط لا بقيمة البناء وعنده."

(الدر المختارمع رد المحتار،باب الاستحقاق، 5/ 204و205 ط:سعید)

 مشکاۃالمصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:ألا لاتظلمواألالايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(باب الغصب والعاریۃ،261/1،ط: رحمانیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100615

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں