بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکا دینا اور اس کے بدلے میں ملنے والی رقم کا حکم


سوال

میں گاڑیوں کی ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ ہم نے دس لوگوں کو دعوت دی کہ ہمارے پاس ایک عدد گاڑی ہے، جو ہم بیچنا چاہتےہیں۔ آپ سب ایک ایک پرچی لیں اور اس پر اپنی قیمت لکھ دیں، جس کی قیمت زیادہ ہوگی گاڑی اس کو اس قیمت کے بدلے دے دی جائے گی. یاد رہے کہ کسی کو اس کا علم نہیں کہ دوسرے نے اس گاڑی کی کیا قیمت لکھی ہے۔ ان میں سے ایک میرا دوست تھا، جب نو پرچیاں آگئیں تو میں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ قیمت دس ہزار لکھی گئی ہے تو میں نے اپنے دوست کو میسج کیا کہ تم اپنی پرچی پر دس ہزار پانچ سو لکھ کر جمع کرا دو۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور وہ گاڑی میرے دوست کو مل گئی اور باقی 9 افراد اس سودے سے خارج ہوگئے۔ اب میرے اس جیتنے والے دوست نے مجھ سے خوش ہو کر 3000 روپے بطور ہدیہ پیش کیےہیں اور یاد رہے کہ نہ میں نے ان سے ان پیسوں کا مطالبہ کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے پہلے بتایا تھا کہ اگر مدد کروگے تو 3000 ملیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ :

1۔ کیا اپنے دوست کو خفیہ میسج کر کے اس کو فائدہ پہنچانا جائز عمل تھا؟
2۔ کیا یہ رقم میرے لیے لینا جائز ہے یا نہیں؟ اور کیوں؟

جواب

1۔ سائل کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ اپنے دوست کو خفیہ میسج کرکے دیگر افراد کی جانب سے لکھی گئی قیمت بتائے؛ تاکہ اس کا دوست اس سے زیادہ قیمت لکھ کر گاڑی خرید لے اور باقی افراد اس سے خارج ہوجائیں، یہ خیانت، دھوکا دہی اور فریب ہے۔

2۔ سائل کے لیے یہ رقم لینا جائز نہیں، کیوں کہ یہ رقم دھوکا دینے میں معاونت کے بدلے میں ملی ہے۔ فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں