بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈھیلے سے استنجا کرنے کا طریقہ


سوال

مجھے ایک شخص نے کہا کہ گرمیوں میں استنجا کا علیحدہ طریقہ ہے، اور سردیوں کے لیے علیحدہ۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر ہے تو طریقہ کیا ہوگا؟ اگرنہیں تو یہ کس مذہب میں ہے؟ 

جواب

واضح رہے  کہ استنجا  کا طریقہ یہ ہے کہ پیشاب سے فراغت کا اطمینان ہونے کے بعد مٹی کے پاک ڈھیلے یا ٹشو پیپر سے پیشاب کو خشک کرنے کے بعد پانی سے دھو ڈالے، پاخانہ کے بعد مٹی کے تین ڈھیلوں یا ٹشو پیپر سے پاخانہ کے مقام کو صاف کرنے کے بعد پھر پانی سے دھو لینا چاہیے۔یہی افضل طریقہ ہے۔اور اس میں ڈھیلوں کے استعمال میں کسی خاص کیفیت اور طریقہ اختیارکرنا لازم نہیں، بلکہ اصل مقصود صفائی اور پاکی کا حصول ہے۔اور اگر ڈھیلے یا ٹشو کا استعمال نہ ہوسکے تو صرف پانی سے استنجا کرلینا بھی کافی ہے،اور پانی کے استعمال کی صورت میں پانی اس قدر استعمال کیاجائے کہ خوب پاکی حاصل ہوجائے۔

البتہ بعض فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص صرف ڈھیلے سے استنجا کررہاہو، اس کے بعد پانی استعمال نہ کرے  اور پاخانہ کرنے کے بعد پچھلی شرم گاہ کا استنجا کرنا ہو تو ایسے شخص کو چاہیے کہ گرمی کے موسم میں قضاءِ حاجت سے فارغ ہوکر پہلا ڈھیلہ پاخانہ کے مقام پر آگے سے پیچھے کی جانب لے جائے دوسرا ڈھیلہ پیچھے سے آگے کی جانب اور تیسرا ڈھیلہ پھر آگے سے پیچھے کی جانب لے جائے؛ تاکہ خوب اچھی طرح پاکی حاصل ہو، اور خصیتین نجاست سے آلودہ نہ ہوں۔ اور سردی کے موسم میں اس کے برعکس کرے، یعنی پہلا ڈھیلہ پیچھے سے آگے کی جانب دوسرا ڈھیلہ آگے سے پیچھے کی جانب اور تیسرا ڈھیلہ پیچھے سے آگے کی جانب استعمال کرے۔ جن فقہاءِ کرام نے یہ طریقہ لکھا ہے انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ فرق مرد کے لیے ہے، اور مقصود پاکی میں مبالغہ ہے۔ عورتوں کے لیے گرمی سردی کے موسم کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں، لہٰذا انہیں صرف پتھر یا ڈھیلے سے استنجا کرنا ہو تو جس طرح پاکی کا حصول ممکن ہو  وہ طریقہ اختیار کرسکتی ہیں،  محیط برہانی اور شامی میں لکھا ہے کہ عورتیں ہر موسم میں اس طریقے سے استنجا کریں جو مردوں کے لیے سردی کے موسم میں استنجا کا طریقہ ذکرکیاگیاہے۔ جب کہ درر الحکام میں لکھا ہے کہ عورتیں ہر موسم میں اس طریقے سے استنجا کریں جیسے مردوں کے لیے گرمی کے موسم میں استنجے کا طریقہ ذکر کیا گیا ہے۔

تاہم یہ طریقہ لازم نہیں ہے، اس سے بھی مقصود یہ ہے کہ خوب اچھی  طرح پاکی حاصل ہوجائے  اور دیگر اعضاء نجاست سے آلودہ نہ ہوں ۔او ر یہ مقصد اس کے علاوہ کسی طریقہ سے حاصل ہو  تب بھی استنجا درست ہے۔ ہمارے ہاں الحمد للہ پانی فراوانی کے ساتھ موجود ہے، اس لیے اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے، یہ حکم اس وقت ہے جب کہ صرف پتھر یا ٹشو وغیرہ سے استنجا کیا جائے، نیز واضح رہے کہ صرف پتھر اور ٹشو سے استنجا اس وقت کافی ہوتاہے جب کہ قضاءِ حاجت کرتے وقت نجاست اپنے مخرج سے تجاوز کرکے جسم کے دوسرے حصے پر نہ لگے، بصورتِ دیگر پانی سے پاکی کا حصول لازم ہوگا۔

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (1 / 16):
"وعدد الثلاثة في الاستنجاء بالأحجار أو ما يقوم مقامها ليس بأمر لازم، والمعتبر هو الإنقاء، فإن أنقاه الواحد كفاه وإن لم ينقه الثلاث زاد عليه.وقيل في كيفية الاستنجاء بالأحجار: إن الرجل في زمن الصيف يدبر بالحجر الأول، ويقبل بالحجر الثاني، ويدبر بالثالث، وفي الشتاء يقبل بالحجر الأول ويدبر بالثاني ويدبر بالثالث؛ لأن في الصيف خصيتاه متدليتان، ولو أقبل بالأول تتلطخ خصيتاه، فلايقبل ولا كذلك في الشتاء. والمرأة تفعل في الأحوال كلها مثل ما يفعل الرجل في الشتاء. وقد قيل: المقصود هو الإنقاء، فيفعل على أي وجه يحصل المقصود."

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 337):
" (قوله: ولايتقيد الخ ) أي بناء على ما ذكر من أن المقصود هو الإنقاء فليس له كيفية خاصة وهذا عند بعضهم  وقيل: كيفيته في المقعدة في الصيف للرجل إدبار الحجر الأول والثالث وإقبال الثاني، وفي الشتاء بالعكس، وهكذا تفعل المرأة في الزمانين كما في المحيط، وله كيفيات أخر في النظم والظهيرية وغيرهما".

درر الحكام شرح غرر الأحكام - (1 / 210):
"ولهذا قال هاهنا لا العدد ثم أضرب بقوله: بل استحب ثم قال: ( يدبر بالأول ويقبل بالثاني ) الإدبار الإذهاب إلى جانب الدبر، والإقبال ضده ويدبر بالثالث صيفًا، ويقبل بالأول والثالث ويدبر بالثاني شتاء، فإن في المسح إقبالاً وإدبارًا مبالغة في التنقية، وفي الصيف يدبر بالأول؛ لأن الخصية فيه مدلاة فلايقبل احترازًا عن تلوثها، ثم يقبل ثم يدبر مبالغةً في التنظيف، ولا كذلك في الشتاء، فيقبل بالأول؛ لأنه أبلغ في التنقية ثم يدبر ثم يقبل للمبالغة، (والمرأة في الوقتين) أي في الصيف، والشتاء (مثله صيفًا) يعني تدبر المرأة بالأول أبدًا لئلايتلوث فرجها".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (1 / 252):
"وأشار بقوله: منق إلى أن المقصود هو الإنقاء وإلى أنه لا حاجة إلى التقييد بكيفية من المذكورة في الكتب نحو إقباله بالحجر في الشتاء وإدباره به في الصيف لاسترخاء الخصيتين فيه لا في الشتاء.  وفي المجتبى: المقصود الإنقاء فيختار ما هو الأبلغ والأسلم عن زيادة التلويث اهـ ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 337):
"وقال في شرح المنية: ولم أر لمشايخنا في حق القبل للمرأة كيفية معينة في الاستنجاء بالأحجار. اهـ. قلت: بل صرح في الغزنوية بأنها تفعل كما يفعل الرجل إلا في الاستبراء فإنها لا استبراء عليها، بل كما فرغت من البول والغائط تصبر ساعةً لطيفةً، ثم تمسح قبلها ودبرها بالأحجار، ثم تستنجي بالماء اهـ". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں