بھابھی اور دیور میں کس حد تک روابط جائز ہیں؟ اور جہاں سے حرمت کی ابتدا ہوتی ہے وہ کون سی چیز ہے؟
دیور / جیٹھ اور بھابھی ایک دوسرے کے لئے نامحرم ہیں ، اور جو حکم دیگر نامحرموں سے پردہ کا ہے وہی حکم دیور/جیٹھ اور بھابھی کا بھی ہے، نبی کریم ﷺ سے جب دیور (وغیرہ) سے پردہ کا حکم دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے دیور کو موت سے تعبیر فرمایا،یعنی موت سے جتنا ڈر ہوتا ہے اتنا ہی دیور اور جیٹھ وغیرہ سے بھی ہے، خصوصاً جب کہ رہائش بھی ساتھ ہی ہو، ایسے مواقع پر پردہ کاحکم ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ مزید احتیاط کا متقاضی ہوجاتا ہے۔
البتہ مشترکہ خاندانی نظام میں عورت کے لیے پردے کی صورت یہ ہے کہ کوئی بڑی چادر جس سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہو اوڑھ کر گھر کے کام کاج کرلے۔ بلا ضرورت دیور سے بات چیت نہ کی جائے۔ اگر کبھی کوئی ضروری بات یا کام ہو تو آواز میں لچک پیدا کیے بغیر پردہ میں رہ کر ضرورت کی حد تک بات کی جائے۔ خلوت میں یا پاس بیٹھنے کی یا ہنسی مذاق کرنے کی شرعاً اجازت نہیں۔ نیزکبھی سارے گھر والے اکٹھے کھانے پر یا ویسے بھی بیٹھے ہوں تو خواتین کو چاہیے کہ ایک طرف اور مرد ایک طرف رہیں، تاکہ اختلاط نہ ہو۔
مشترکہ رہائش کی صورت میں گھر کے نامحرم مرد بھی اس کا اہتمام کریں کہ گھر میں داخل ہوتے وقت بغیر اطلاع کے نہ داخل ہوں، بلکہ بتا کر یا کم ازکم کھنکار کر داخل ہوں، تاکہ کسی قسم کی بے پردگی نادانستگی میں بھی نہ ہو۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن عقبة بن عامر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: ( إياكم والدخول على النساء)، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو؟ قال: ( الحمو الموت )".
(صحیح البخاري ، باب لا يخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم والدخول على المغيبة ،5/ 2005، ط. دار ابن كثير)
فتاوی شامی میں ہے :
"وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا يكلم الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى، وبه بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، ويكلمها بما لا يحتاج إليه زائدة فتنبه.
(قوله وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل - عليها السلام - بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ.
وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اهـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة (قوله في نقل القهستاني) أي عن بيع المبسوط (قوله زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة على الراجح."
(كتاب الحظر والإباحة.فصل في النظر والمس.رد المحتار6/ 369ط:سعيد)
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو رشتہ دار محرم نہیں ، مثلا ً خالہ زاد ماموں زاد پھوپھی زاد بھائی یا بہنوئی یا دیور وغیرہ ، جوان عورت کو ان کے روبرو آنا اور بے تکلف باتیں کرنا ہرگز نہیں چاہیے،اگر مکان کی تنگی یا ہر وقت کی آمد و رفت کی وجہ سے گہرا پردہ نہ ہوسکے تو سر سے پاؤں تک کسی میلی چادر سے ڈھانپ کر شرم و لحاظ سے بضرورت روبرو آجائے اور کلائی ،بازو ، سر کے بال اور پنڈلی ان سب کا ظاہر کرنا حرام ہے ،اسی طرح ان لوگوں کے روبرو عطر لگا کر عورت کو آنا جائز نہیں ،اور نہ بجتا ہوا زیور پہنے۔ـ‘‘
(تعلیم الطالب،ص ۵)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509102218
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن