بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے دیور کے بیٹے سے پردہ کا حکم


سوال

کیا شوہر کی وفات کے بعد بیوہ عورت دورانِ عدت اپنے دیور (شوہر کے چھوٹے بھائی) کے بیٹے سے سامنا کر سکتی ہے، جب کہ وہ ایک ہی گھر میں رہ رہے ہوں؟ نیز اس میں بچے کے بالغ یا نابالغ ہونے کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

عورت کے لیے دیور کا بیٹا (شوہر کے بھائی کا بیٹا) شوہر کی زندگی میں بھی نامحرم، اجنبی ہے اور شوہر کے انتقال کے بعد بھی اجنبی ہے، لہٰذا دونوں حالتوں میں عورت کے لیے دیور کے بالغ بیٹے سے پردہ کرنا ضروری ہے، البتہ  چوں کہ گھر میں مستقل آنا جانا ہو تا ہے؛ اس لیے اگر عورت ایک بڑی چادر سے اپنے پورے سراپے کو ڈھانپ لے اور بالوں کو بھی چادر کے اندر رکھے، صرف چہرہ اور ہاتھ  کھلے ہوں اور گھر کے کام کاج کے لیے سامنے سے آنا جانا ہو تو اس کی گنجائش ہے، اور  بقدر ضرورت بات کرنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن بلاضرورت گپ شپ لگانا  یا بالکلیہ پردہ ترک کرنا شرعاً درست نہیں۔

باقی نابالغ لڑکے سے پردے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ  لڑکا جب اتنی عمر کا ہوجائے جس میں اس کو شہوت آتی ہو یا اس کو دیکھنے سے عورت کو شہوت پیدا ہوتی ہو تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے، فقہاءِ کرام نے لڑکے کی بلوغت کی کم سے کم عمر 12 سال لکھی ہے، اس سے پہلے بلوغت کے سلسلے میں لڑکے کا دعویٰ معتبر نہیں ہے،  اور  لڑکی کی بلوغت کی کم سے کم عمر 9 سال ہے، اسی عمر سے پردہ شروع ہوجانا  چاہیے، الا یہ کہ اگر کسی لڑکے میں 12 سال کی عمر سے پہلے ہی لڑکیوں کی طرف میلان محسوس کیا جائے تو  اسی عمر سے پردہ کرنا چاہیے۔

و فی مرقاة المفاتيح:

"قال النووي رحمه الله:  والمراد بالحمو هنا أقارب الزوج غير آبائه لأن الخوف من الأقارب أكثر والفتنة منهم أوقع لتمكنهم من الوصول إليها والخلوة بها من غير نكير عليهم بخلاف غيرهم وعادة الناس المساهلة".

(10/ 32ط:بمبئیہند)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين: 

"ومراهق، ومجنون وسكران كبالغ، بزازية. (قوله: كبالغ) أي في ثبوت حرمة المصاهرة بالوطء، أو المس  أو النظر ولو تمم المقابلات بأن قال كبالغ عاقل صالح لكان أولى ط وفي الفتح: لو مس المراهق وأقر أنه بشهوة تثبت الحرمة عليه. (قوله: بزازية) لم أر فيها إلا المراهق دون المجنون والسكران نعم رأيتهما في حاوي الزاهدي".

 (رد المحتار3/ 36ط:سعيد)

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’جو رشتہ دار محرم نہیں، مثلا ً خالہ زاد ماموں زاد پھوپھی زاد بھائی  یا بہنوئی یا دیور وغیرہ، جوان عورت کو ان کے روبرو آنا اور بے تکلف باتیں کرنا ہرگز نہیں چاہیے، اگر مکان کی تنگی یا ہر وقت کی آمد و رفت کی وجہ سے گہرا پردہ نہ ہوسکے تو سر سے پاؤں تک کسی میلی چادر سے ڈھانپ کر شرم و لحاظ  سے بضرورت روبرو آجائے اور کلائی، بازو، سر کے بال اور پنڈلی  ان سب کا ظاہر کرنا حرام ہے، اسی طرح ان لوگوں کے روبرو عطر لگا کر عورت کو آنا جائز نہیں، اور نہ بجتا ہوا زیور پہنے‘‘۔

(تعلیم الطالب،ص ۵)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں