بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دیوالی کے موقع پر کسی غیرمسلم کی مبارک بادی کا جواب دینا اور کفار سے تعلقات کی حدود


سوال

دیوالی پر مبارک بادی دینا جائز نہیں، لیکن اگر وہ مبارک بادی دیں تو اس کا جواب دینا کیسا ہے؟ جب کہ جواب نہ دیں تو تعلقات کے مکدر ہونے کا خدشہ ہے!

جواب

غیرمسلموں کے مذہبی تہوار کے موقع پر انہیں مبارک باد دینا یا ان کی جانب سے ان کے نظریہ کے مطابق کسی مسلمان کو اس دن کی تعظیم  کے متعلق کلمات کہنا اور مسلمان کا جواب میں مبارک باد دینا دونوں جائز نہیں۔ ابتداءً مبارک باد دینا یا مبارک بادی کا جواب دینا گویا ان کے نقطۂ نظر کی تائید ہے، جب کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار مشرکانہ اعتقادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے شرک سے بے زاری اور لاتعلقی کا اظہار ضروری ہے، اور مذہبی اعتقادات میں شرعی اَحکام کی تعمیل لازم ہے، اس سلسلہ میں کسی کی رضا یا ناراضی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، مخلوق کی اطاعت اور ان کی رضا کی بجائے خالق کی اطاعت اور اس کی رضا کو مقدم رکھنا لازم ہے؛ لہذا دیوالی  کی مبارک باد دینا یا مبارک بادی کے جواب میں مبارک باد کے کلمات کہنا جائز نہیں۔ اور اگر اس سے ان کے دین کی تعظیم یا اس پر رضامندی مقصود ہو تو کفر کا اندیشہ ہے۔

اگر آپ اس موقع پر ظاہری خوش خلقی نہیں دکھاتے اور ہندوستان میں آپ کے لیے مشکلات ہوسکتی ہیں، تو ان کی تقریب میں شریک ہوئے اور مبارک باد کا جواب دیے بغیر، حکمت کے ساتھ مناسب انداز میں ایسا جواب دے دیں کہ ان کے نقطۂ نظر کی تائید یا خوشی کا کوئی پہلو نہ نکلے۔

ذیل میں اضافی فائدے کے طور پر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی محمد شفیع صاحب رحمہما اللہ  کی تحقیق "معارف القرآن" کے حوالے سے نقل کی جاتی ہے:

’’ کفار کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کیسے ہونے چاہییں؟

              یہ مضمون بہت سی آیات قرآنیہ میں مجمل اور مفصل مذکور ہے جس میں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ موالات اور دوستی اور محبت سے شدت کے ساتھ روکا گیا ہے، ان تصریحات کو دیکھ کر حقیقتِ حال سے ناواقف غیر مسلموں کو  تو یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں غیر مسلموں سے کسی قسم کی رواداری اور تعلق کی بلکہ حسن اخلاق کی بھی کوئی گنجائش نہیں، اور دوسری طرف اس کے بالمقابل جب قرآن کی بہت سی آیات سے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور عمل سے خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہم) اور دوسرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے تعامل سے غیر مسلموں کے ساتھ احسان وسلوک اور ہم دردی و غم خواری کے احکام اور ایسے ایسے واقعات ثابت ہوتے ہیں جن کی مثالیں دنیا کی اقوام میں ملنا مشکل ہیں، تو ایک سطحی نظر رکھنے والے مسلمان کو بھی اس جگہ قرآن وسنت کے احکام و ارشادات میں باہم تعارض اور تصادم محسوس ہونے لگتا ہے، مگر یہ دونوں خیال قرآن کی حقیقی تعلیمات پر طائرانہ نظر اور ناقص تحقیق کا نتیجہ ہوتے ہیں، اگر مختلف مقامات سے قرآن کی آیات کو جو اس معاملہ سے متعلق ہیں جمع کر کے غور کیا جائے تو نہ غیر مسلموں کے لیے وجہ شکایت باقی رہتی ہے، نہ آیات و روایات میں کسی قسم کا تعارض باقی رہتا ہے، اس لیے اس مقام کی پوری تشریح کردی جاتی ہے، جس سے موالات اور احسان و سلوک یا ہم دردی و غم خواری میں باہمی فرق اور ہر ایک کی حقیقت بھی معلوم ہوجائے گی، اور یہ بھی کہ ان میں کون سا درجہ جائز ہے؟ کون سا ناجائز؟ اور جو ناجائز ہے، اس کی وجوہ کیا ہیں؟

             بات یہ ہے کہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں تعلقات کے مختلف درجات ہوتے ہیں:

           ایک درجہ تعلق کا قلبی موالات یا دلی موددت ومحبت ہے، یہ صرف مومنین کے ساتھ مخصوص ہے غیر مومن کے ساتھ مومن کا یہ تعلق کسی حال میں قطعًا جائز نہیں۔

             دوسرا درجہ مواسات کا ہے، جس کے معنی ہیں ہم دردی و خیر خواہی اور نفع رسانی کے، یہ بجز کفار اہلِ حرب کے جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں، باقی سب غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ سورۂ  ممتحنہ کی آٹھویں آیت میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے، جس میں ارشاد ہے:

 

﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾ [الممتحنة:8]

  "یعنی اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ان سے جو لڑتے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا سلوک کرو"۔

           تیسرا درجہ مدارات کا ہے، جس کے معنٰی ہیں ظاہری خوش خُلُقی اور دوستانہ برتاؤ کے، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، جب کہ اس سے مقصود ان کو دینی نفع پہنچانا ہو یا وہ اپنے مہمان ہوں، یا ان کے شر اور ضرر رسانی سے اپنے آپ کو بچانا مقصود ہو، سورۂ آل عمران کی آیت مذکورہ میں ﴿ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً  سے یہی درجہ مدارات کا مراد ہے، یعنی کافروں سے موالات جائز نہیں، مگر ایسی حالت میں جب کہ تم ان سے اپنا بچاؤ کرنا چاہو، اور چوں کہ مدارات میں بھی صورت موالات کی ہوتی ہے؛ اس لیے اس کو موالات سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ (بیان القرآن)

          چوتھا درجہ معاملات کا ہے کہ ان سے تجارت یا اجرت و ملازمت اور صنعت و حرفت کے معاملات کیے جائیں، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، بجز ایسی حالت کے کہ ان معاملات سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو، رسولِ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہم) اور دوسرے صحابہ (رضی اللہ عنہم) کا تعامل اس پر شاہد ہے ، فقہاء نے اسی بنا پر کفار اہلِ حرب کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے، باقی تجارت وغیرہ کی اجازت دی ہے، اور ان کو اپنا ملازم رکھنا یا خود ان کے کارخانوں اور اداروں میں ملازم ہونا یہ سب جائز ہے۔

           اس تفصیل سے آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ قلبی اور دلی دوستی و محبت تو کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں جائز نہیں، اور احسان و ہم دردی و نفع رسانی بجز اہلِ حرب کے اور سب کے ساتھ جائز ہے، اسی طرح ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتاؤ بھی سب کے ساتھ جائز ہے، جب کہ اس کا مقصد مہمان کی خاطر داری یا غیر مسلموں کو اسلامی معلومات اور دینی نفع پہنچانا یا اپنے آپ کو ان کے کسی نقصان و ضرر سے بچانا ہو۔

(معارف القرآن، [آلِ عمران:28] جلد دوم، ص: 50، 51) ط: ادارۃ المعارف، کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں