بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دیوار یا ڈبے پر رنگ کے ذریعے لکھے ہوئے مقدس نام کو مٹانے کا حکم


سوال

 اگر کسی دیواریا کسی ڈبے  پر مقدس نام ہو  اور اس نام کو کھرچ لیا جائےاور وہ   رنگ جس کے ذریعے نام لکھا گیا تھا وہ  زمین پر گرتا ہے، اس طرح نام مٹ جاتا ہے،تو کیا اس طرح مقدس نام مٹایا جاسکتا ہے؟ میں نے پڑھا  ہے کہ کسی چیز پر مقدس نام ہو نام مٹا کر اس چیز کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ    دیوار یا ڈبے پر  رنگ وغیرہ سے  لکھے ہوئے مقدس نام وغیرہ  کا احترام بھی لاز م ہے، البتہ ضرورتاً اس کو مٹانا بھی جائز ہے، مٹانے کی صورت یہ ہے کہ  اگر وہ  وہ رنگ ہٹ سکتاہے تو اس حصے کو اکھاڑ کر کسی پاک جگہ دفن کردے، اور اگر یہ صورت ممکن نہ ہو تو اس دیوار  یا ڈبے پر اچھی طرح سے رنگ کروا کر مقدس نام وغیرہ کو مکمل طور پر  مٹادیا جائے، بہرصورت مکمل اَدب ملحوظ رکھنا ضروری ہے، تاہم مقدس نام مٹانے کے بعد اس چیز کو استعمال کرنا درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

" الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء ... وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. وفي الذخیرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراء ة منه لایحرق بالنار، إلیه أشار محمد، وبه نأخذ، ولایکره دفنه، وینبغي أن یلف بخرقة طاهرة ویلحد له؛ لأنه لو شق ودفن یحتاج إلی إهالة التراب علیه، وفي ذٰلک نوع تحقیر، إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إلیه ید محدث ولاغبار ولاقذر؛ تعظیماً لکلام اللّٰه عز وجل."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في البيع، ج:6، ص:422، ط:سعيد)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ولو كتب القرآن على الحيطان و الجدران، بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، و بعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوي قاضيخان."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد و ما كتب فيه شيئ من القرآن أو كتب فيه اسم الله تعالى، ج:5، ص:323، ط: رشيدية)

وفیه ایضاً:

"‌إذا ‌كتب ‌اسم فرعون أو كتب أبو جهل على غرض يكره أن يرموا إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمة، كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:323، ط:دار الفکر)

وفيه ايضاً:

"ولایجوز زلف شيء في کاغذ فیه مکتوب من الفقه، ولوکان فیه اسم اللّٰه تعالٰی أو اسم النبي یجوز محوه لیلف فیه شيء، کذا في القنیة ولو محا لوحًا کتب فیه واستعمله في أمر الدنیا یجوز."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:322، ط: رشیدیة) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں