میری گھر والی نے بتایا کہ اس کے ساتھ میرے بھائی نے زبردستی غلط کام کیا ہے، یہ بات اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہی، جب میں نے بھائی سے یہ سوال پوچھا تو اس نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے قرآن پر ہاتھ رکھا اور کہا اگر یہ الزام سچ ہے تو اللہ مجھے اور میرے بچوں کو تباہ کردے۔
اب میرا اصل سوال یہ ہے کہ اگر ان کو قرآن پر چھوڑدوں اور قرآن کے فیصلےکا انتظار کروں، کیا مجھے ایسی گھر میں اپنے بچوں کو رکھنا جائز ہے یا بیوی کو طلاق دے دوں؟
صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیوی اگر اپنی بات کو شرعی گواہوں سے ثابت نہیں کرسکے اور آپ کا بھائی حلفًا اس کا انکار کررہا ہے تو شرعاً یہ الزام ثابت نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس سے آپ کے اور بیوی کے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا، نہ ہی بیوی کو طلاق دینا ضروری ہے۔ البتہ دیور /جیٹھ سے شرعاً پردہ ہے، آئندہ اس کا بھرپور انتظام کریں کہ آپ کے بھائی اور اور آپ کی بیوی کے اختلاط یا بلاحجاب سامنا کرنے کی نوبت نہ آئے، اگر ایک گھر میں مشکل ہو تو الگ رہائش کا انتظام کریں؛ تاکہ آئندہ اس قسم کی باتوں سے بچا جاسکے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ويثبت الزنا عند الحاكم ظاهرا بشهادة أربعة يشهدون عليه بلفظ الزنا لا بلفظ الوطء والجماع كذا في التبيين. ... ويثبت الزنا بإقراره كذا في البحر الرائق. ولا يعتبر إقراره عند غير القاضي ممن لا ولاية له في إقامة الحدود "۔(2/ 143، کتاب الحدود، الباب الثانی فی الزنا، ط: رشیدیہ)۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200755
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن