بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیٹول والے پانی سے غسل اور وضو کا حکم


سوال

پانی میں جب ڈیٹول جاتا ہے تو اس کا رنگ ، بو اور ذائقہ تینوں بدل جاتے ہیں تو کیا ایسے پانی سے وضو یا غسل کیا جاسکتا ہے ؟ مذکورہ پانی سے وضو اور غسل کرنا درست نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ ڈیٹول مائع چیز ہے اور اس سے پانی کے تینوں اوصاف بدل جاتے ہیں۔

جواب پانی میں ڈیٹول(Dettol) اگر اتنی مقدار میں ڈالا جائے کہ اس کا رنگ ، بو اور ذائقہ تینوں یا ان تینوں میں سے کم سے کم دو وصف غالب آجائے تو ایسے پانی سے وضو اور غسلِ جنابت کرنا درست نہیں، اور اگر پانی پر اس کا صرف ایک وصف رنگ یا بو یا ذائقہ غالب آجائے اور باقی دو وصف مغلوب ہوں تو ایسی صورت میں اس پانی سے وضو اور غسل ِجنابت کرنا درست ہے۔

اس بارے میں اپنی رائے سے مطلع فر مائیں  ۔

جواب

واضح رہے کہ  ایسی  مائع چیز جو  پکائے بغیر پانی میں ملائی جائے اور اس کے تینوں اوصاف (رنگ، بو ، مزہ) پانی سے مختلف ہوں تو  جب  اس مائع چیز کے تین اوصاف میں سے کوئی دو اوصاف پانی پر غالب آجائیں تو  اس پانی سے وضو  درست نہیں ہوتا ہے اور جب مائع چیز کے کوئی بھی دو اوصاف پانی کے اوصاف پر غالب نہ  ہوں  تو وضوء درست  ہوتا ہے۔ لہذاجب ڈیٹول ایسی مائع چیز ہے جو پانی میں جراثیم کو ختم کرنے یا  نظافت  کے اضافہ کے لیے بغیر پکائے  ملائی جاتی ہے اور ڈیٹول کی تمام صفات (رنگ، بو  اور مزہ) پانی سے مختلف ہیں تو ڈیٹول ملے ہوئے پانی سے وضوء یا غسل اس وقت تک درست  ہوگا جب تک ڈیٹول کی کوئی دو صفات پانی پر غالب نہ آجائیں، پس جب ڈیٹول کی کوئی بھی دو صفات غالب آجائیں گی اس وقت وضو  اور غسل درست  نہیں ہوگا۔

نیز واضح  رہے کہ ڈیٹول پر اشنان والا حکم (یعنی جب تک رقت و سیلان باقی رہے گی تب تک وضو  درست ہوگا) لگانا مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا  پر  درست نہیں ہے:

۱) وہ ضابطہ  اس صورت میں ہے جب پاک چیز کو ملا کر پکایا جائے جبکہ  نہ پکانے کی صورت کا ضابطہ فقہاء نے الگ بیان کیا ہے جس کو شرح منیۃ المصلی  اور حاشیۃ الطحطاوی میں یوں تعبیر کیا"ثانيهما: غلبة المخالط و هي تكون من غير طبخ و لا تشرب نبات" اور "لما كانت الغلبة مختلفة باختلاف المخالط بغير طبخ ذكر ملخص ما ذكره المحققون ضابطا في ذلك الخ" (ذیل میں مکمل حوالہ موجود ہے) "۔ لہذا ڈیٹول کا حکم نہ پکائی جانے والی اشیاء کے مطابق لگایا جائے گا ۔

۲) فقہاء  نے پاک چیز پکانے کی صورت میں جن چیزوں کا استثناء کیا ہے اور جو مثالیں بیان کی ہیں اس کا جائزہ  لیا جائے تو وہ سب کی سب  جامد اشیاء ہیں  (مثلا اشنان، سدر وغیرہ )، اسی وجہ سے ان پر حکم بھی جامد اشیاء والا لگایا یعنی جامد اشیاء کو جب بغیر پکائے پانی میں ملا دیا جائے تو رقت و سیلان کا اعتبار ہوتا ہے  تو فقہاء نے پکانے کی صورت میں بھی اگر جامد اشیاء نظافت بڑھانے والی ہوں تو اس کو اسی حکم پر باقی رکھا ہے اور صرف پکانے سے حکم تبدیل نہیں کیا ہے۔ ڈیٹول چو نکہ مائع ہے جامد نہیں ہے گو اس سے بھی تنظیف ہی مقصود ہے اس پر وہ حکم نہیں لگےگا۔

۳) رقت و سیلان  والا حکم ڈیٹول پر لگانا عقلا بھی درست نہیں ہے کیونکہ ڈیٹول ایسی مائع چیز ہے کہ اس کے ملانے سے پانی کی رقت و سیلان میں تبدیلی نہیں آئے گی چاہے کتنی ہی مقدار میں ملا دیا جائے کیونکہ خالص ڈیٹول بھی پانی کی طرح رقیق اور سیال ہی ہوتا ہے لہذا رقت اور سیلان کی تبدیلی پر  وضوء درست نہ ہونے  کو موقوف کرنا عقلا درست نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے ہی مندرجہ بالا مذکور ضابطہ میں مائع اشیاء کے ملانے کی صورت میں فقہاء نے کہیں بھی رقت و سیلان کو معیار حکم نہیں بنایا ہے بلکہ اجزاء اور اوصاف کی تبدیلی کو معیار بنایا ہے۔ 

شرح منیۃ المصلی لابن امیر الحاج میں ہے:

"فمن هنا اخذ فخر الدين الزيلعي في التوفيق بينما ظاهره التخالف من كلام الاصحاب قائلا بان الماء اذا بقي علي خلقته و لم يزل عنه اسم لاماء جاز الوضوء به و ان زال و صار مقيدا لم يجز  و التقييد المخرج عن الاطلاق باحد الامرين: احدهما كمال الامتزاج و هو باحد الامرين: اما بالطبخ بعد خلطه بشيئ طاهر لا يقصد به المبالغة في التنطيف او بتسرب النبات بحيث لا ىخرج الا بعلاج فان كان ىخرج من غير علاج لم يكمل امتزاجه ......ثانيهما: غلبة المخالط و هي تكون من غير طبخ و لا تشرب نبات و حمله فيه: ان المخالط ان كان جامدا فما دام يجري علي الاعضاء فالماء هو الغالب و ان كان مائعا موافقا للماء في الاوصاف كلها من اللون و الطعم و الرائحة كالماء المستعمل علي قول من يقول انه طاهر علي ما هو صحيح يعتبر الغلبة بالاجزاء و ان كان مخالفا للماء في اوصافه الثلاثة او اكثرها لا يجوز الوضوء به والا جاز و ان كان مخالفا للماء في بعض اوصافه يعتبر الغلبة في ذلك الوصف المخالف كالبن مخالف الماء في الطعم و اللون فان غلب لونه او طعمه لم ىجز و الا جاز الخ."

(کتاب الطہارۃ فصل فی المیاہ ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۸۱،دار الکتب العلمیۃ)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

 

 

«" ولا " يجوز الوضوء " بماء زال طبعه " -وهو: الرقة والسيلان والإرواء والإنبات " بالطبخ " بنحو حمص وعدس لأنه إذا برد ثخن كما إذا طبخ بما يقصد به النظافة -كالسدر- وصار به ثخينا وإن بقي على الرقة جاز به الوضوء. ولما كان تقييد الماء يحصل بأحد الأمرين: كمال الامتزاج بتشرب النبات أو الطبخ بما ذكرناه بين الثاني وهو: غلبة الممتزج بقوله: " أو بغلبة غيره " أي غير الماء " عليه " أي على الماء ولما كانت الغلبة مختلفة باختلاف المخالط بغير طبخ ذكر ملخص ما جعله المحققون ضابطا في ذلك، فقال: " والغلبة " تحصل " في مخالطة " الماء لشيء من " الجامدات " الطاهرة " بإخراج الماء عن رقته " فلا ينعصر عن الثوب " و " إخراجه عن " سيلانه " فلا يسيل على الأعضاء سيلان الماء " و " أما إذا بقي على رقته وسيلانه: فإنه " لا يضر " أي لا يمنع جواز الوضوء به " تغير أوصافه كلها بجامد:" خالطه بدون طبخ " كزعفران وفاكهة وورق شجر " لما في البخاري ومسلم: أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بغسل الذي وقصته ناقته وهو محرم بماء وسدر وأمر قيس بن عاصم حين أسلم أن يغتسل بماء وسدر واغتسل النبي صلى الله عليه وسلم بماء فيه أثر العجين وكان النبي صلى الله عليه وسلم يغتسل ويغسل رأسه بالخطمي وهو جنب ويجتزئ بذلك. " والغلبة " تحصل " في " مخالطة " المائعات: بظهور وصف واحد " كلون فقط أو طعم " من مائع له وصفان فقط " أي لا ثالث له، ومثل ذلك بقوله: " كاللبن له اللون والطعم " فإن لم يوجد أجاز به الوضوء وإن وجد أحدهما لم يجز كما لو كان المخالط له وصف واحد فظهر وصفه: كبعض البطيخ ليس له إلا وصف واحد، " و " قوله " لا رائحة له " زيادة إيضاح لعلمه من بيان الوصفين. " و " الغلبة توجد " بظهور وصفين من مائع له " أوصاف " ثلاثة " وذلك " كالخل " له لون وطعم وريح فأي وصفين منها ظهرا منعا صحة الوضوء والواحد منها لا يضر لقلته " والغلبة في " مخالطة " المائع الذي لا وصف له " يخالف الماء بلون أو طعم أو ريح: " كالماء المستعمل " فإنه بالاستعمال لم يتغير له طعم ولا لون ولا ريح وهو طاهر في الصحيح " و " مثله ماء " الورد المنقطع الرائحة: تكون " الغلبة " بالوزن " لعدم التميز بالوصف لفقده " فإن اختلط رطلان " مثلا " من الماء المستعمل " أو ماء الورد الذي انقطعت رائحته " برطل من " الماء " المطلق لا يجوز به الوضوء " لغلبة المقيد " وبعكسه " وهو: لو كان الأكثر المطلق " جاز " به الوضوء وإن استويا لم يذكر حكمه في ظاهر الرواية وقال المشايخ: حكمه حكم المغلوب احتياطا "

(کتاب الطہارۃ ص نمبر ۲۴،دار الکتب العلمیۃ)

البحر الرائق  میں ہے:

"وإن كان مائعا موافقا للماء في الأوصاف الثلاثة كالماء الذي يؤخذ بالتقطير من لسان الثور وماء الورد الذي انقطعت رائحته والماء المستعمل على القول المفتى به من طهارته إذا اختلط بالمطلق فالعبرة للأجزاء فإن كان الماء المطلق أكثر جاز الوضوء بالكل، وإن كان مغلوبا لا يجوز، وإن استويا لم يذكر في ظاهر الرواية .......فإن كان مخالفا للماء في الأوصاف كلها، فإن غيرها أو أكثرها لا يجوز الوضوء به، وإلا جاز، وعليه يحمل قول من قال إن غير أحد أوصافه جاز الوضوء به، وإن خالفه في وصف واحد أو وصفين فالعبرة لغلبة ما به الخلاف كاللبن يخالفه في الطعم، فإن كان لون اللبن أو طعمه هو الغالب فيه لم يجز الوضوء به وإلا جاز وكذا ماء البطيخ يخالفه في الطعم فتعتبر الغلبة فيه بالطعم."

(کتاب الطہارۃ ، احکام المیاہ ج نمبر ۱ ص نمبر ۷۳،دار الکتاب الاسلامی)

عمدۃ الفقہ میں ہے:

اور پاک چیز کا غلبہ یا تو کمال امتزاج سے ہوتا ہے یا ملنے والی چیز کے غلبہ سے ہوتا ہے اور کمال امتزاج یا تو نباتات نے پانی کو اس طرح پی لیا ہو کہ وہ پانی نچوڑے بغیر نہ نکل سکے یا کمال امتزاج ایسی پاک چیز کے پانی میں پکانے سے حاصل ہوتا جس سے میل صاف کرنا مقصود نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پس جس پانی میں  کوئی چیز پکائی گئی ہو وہ مختار قول کے مطابق مقید ہوجاتا ہے خواہ اس کے اوصاف بدل جائیں یا نہ بدلیں اور خواہ پانی میں پتلا پن باقی رہے یا نہ رہے۔۔۔۔ اور پانی میں بکائے بغیر ملائی جانے والی پاک چیز یا جامد ہوتی ہے یا مائع (بہنے والی) ہوتی ہے اور وہ مائع اوصاف میں پانی کے موافق ہوتی ہے یا مخالف ہوتی ہے الخ۔

(کتاب الطہارۃ ، پانی کا بیان ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۲۸،زوار اکیڈمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں