بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا (ویڈیوز) ڈیٹا ریکوری کا کام کرنا جائز ہے؟


سوال

 میں ڈیٹا ریکوری کا کام کرتا ہوں (یعنی اگر کسی کی ہارڈ ڈسک, میموری کارڈ، یا یو ایس بی سے میں موجود ڈیٹا ڈیلیٹ ہو جائے تو اس کو واپس لانا) اب ڈیٹا کی مختلف اقسام ہیں۔ جس میں آفس فائلز کے علاوہ تصاویر، آڈیو اور ویڈیوز بھی شامل ہیں۔ بسا اوقات لوگ ڈیٹا ریکوری سے پہلے ہی بتا دیتے ہیں ہماری شادی کی ویڈیوز/ تصاویر ہیں صرف وہی نکل آئیں کافی ہیں ،یا اگر کوئی شخص مطلقاً کہہ دے ہمیں مکمل ڈیٹا ریکور کروانا ہے اس میں ہماری ویڈیوز تصاویر اور دیگر فائلز موجود ہیں۔

1۔کیا اس صورت میں ان کو شادی یا دیگر رسومات کی ویڈیوز اور تصاویر ریکور کر کے دینا جائز ہے؟

2۔اور اس پر لی گئی اجرت جائز ہو گی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے ڈیٹا ریکوری (جس میں جانداروں کی تصویروں اور وڈیوز کو واپس لایا جاتا ہے ،اس )کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے ،اور اس پر لی گئی اجرت بھی حلال نہیں ہے ،البتہ صرف آڈیو ز ڈیٹا کی ریکوری کرے ،اور اس میں بھی کوئی ممنوع عمل نہ کرنا پڑے مثلا گانے وغیرہ ریکور نہ کرے تو جائز ہے ۔

الفقہ الاسلامی میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد." 

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط:دارالفكر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أبي طلحة - رضي الله عنه - قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " «لاتدخل الملائكة بيتًا فيه كلب، و لا تصاوير» ". متفق عليه."

(کتاب اللباس ، باب التصاویر، ج نمبر: ۷، ص نمبر: ۲۸۴۷، دار الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عائشة - رضي الله عنها - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - لم يكن يترك في بيته شيئا فيه تصاليب إلا نقضه» . رواه البخاري."

(کتاب اللباس ، باب التصاویر، ج نمبر: ۷، ص نمبر: ۲۸۴۹، دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام ‌النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حرامًا لا مكروهًا إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصًا."

(کتاب الصلاۃ باب ما یفسد الصلاۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۶۴۷،سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

فلمی کام کرنے والوں کو ہوٹل کے کمرے کرایہ پر دینا:

"(الجواب)جانتے ہوئے ایسے بدکاروں کو کمرہ کرایہ پر دینا اعانت علی المعصیت کی وجہ سے درست نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم"

(کتاب الاجارۃ،ج9،ص292،ط؛دار الاشاعت)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"بینک والوں کو بلڈنگ کرایہ پر دینا طوائفوں کو مکان کرایہ پر دینا

"ان مسائل میں اختلاف ہے۔ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ اجارہ جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک اجارہ ناجائز اور اجرت لینا درست نہیں۔اس لیے بلاضرورت شدیدہ اس میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔اگرچہ نفس عقد جائز ہے مگر بوجہ اعانت علی المعصیۃ اس میں معاملہ میں احتیاط کرنا لازم ہے۔إذا استأجر رجلا ليحمل له خمرا فله الأجر في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا أجر له ۔(عالمگیری ) مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نور اللہ مرقدہ فتاوی رشیدیہ ص502 میں لکھتے ہیں:ایسے لوگوں کو کرایہ پر مکان دینا درست نہیں۔بقول صاحبین کے اور امام صاحب کے قول سے جواز معلوم ہوتا ہے کہ مکان تو کرایہ پر دینا گناہ نہیں گناہ بفعل اختیاری مستاجر کے ہے۔مگر فتوی اسی پر ہے کہ نہ دیوے کہ اعانت گناہ کی ہے۔ولاتعاونوا على الاثم والعدوان(فتاوی رشیدیہ)"

(اجارہ کا بیان،ج9،ص337،ط؛جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں