اگر کوئی شخص وفاق المدارس سے دراسات دینیہ کورس کرتا ہو تو کیا اس کو مولانا صاحب کہہ سکتے ہیں؟ رہ نمائی فرمائیں۔
دراسات دینیہ کورس کے انعقاد سے اکابرین وفاق المدارس کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ جو اپنے کام کاج کی مصروفیت کی وجہ سے مکمل وقت علم دین سیکھنے کے لیے نہیں دے سکتے، اور دینی علوم سے واقفیت کے خواہشمند ہیں تو انہیں کم وقت میں دین کے بنیادی علوم یعنی: مختصر علم صرف، ونحو، ترجمہ وتفسیر اور دیگر اہم مسائل سے واقفیت ہو جائے، دراسات دینیہ کا کورس کرنے والا شخص عالم یا مولانا، مولوی وغیرہ نہیں بن جاتا۔ لہذا دراسات دینیہ کا کورس کیے ہوئےکو مولانا نہ کہا جائے؛ کیوں کہ اب مولانا کالفظ ایک خاص معنیٰ کے لیے مخصوص ہو گیا ہے جو درس نظامی سے فارغ التحصیل ہونے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
"حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا وكيع، وعبدة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أن امرأة قالت: يا رسول الله أقول إن زوجي أعطاني ما لم يعطني فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المتشبع بما لم يعط، كلابس ثوبي زور»".
(صحیح مسلم،باب النهي عن التزوير في اللباس وغيره والتشبع بما لم يعط، ج: 3، صفحه: 1681، رقم الحدیث: 126، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
ترجمہ:" ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں ظاہر کروں کہ میرے خاوند نے مجھے فلاں چیز دی ہے حلانکہ اس نے مجھے نہیں دی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسی چیز کو ظاہر کرنے والا کہ جو چیز اس کو نہ دی گئی ہو وہ دو جھوٹ کے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔"
(تحفة المنعم شرح صحیح مسلم، ج: 6، 619، ط: مکتبه ایمان ویقین)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100299
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن