بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیڑھ تولہ سونے پر زکاۃ کا حکم


سوال

 ڈیڑھ تولہ سونے  میں کتنی زکاۃ ہے?

جواب

اگر کسی کی ملکیت میں صرف ڈیڑھ تولہ سونا ہو ، اس کے علاوہ کوئی اور قابلِ زکاۃ مال (چاندی،  ضرورت سے زائد رقم، مالِ تجارت) بالکل بھی موجود نہ ہو ، تو اس سونے پر زکاۃ واجب ہونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے، ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہونے کی صورت میں  زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

لیکن اگر سونے کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکاۃ مال موجود ہو، مثلاً ضرورت سے زائد معمولی سی رقم یا مالِ تجارت بھی موجود ہو  تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔

لہذا اگر  ڈیڑھ تولہ  سونے کے ساتھ، کچھ چاندی یا  ضرورت سے زائد کچھ نقدی یا مالِ تجارت بھی موجود ہو تو پھر زکاۃ واجب ہونے کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ہے۔اس صورت میں ڈیڑھ تولہ سونا اور دیگر قابلِ زکاۃ اموال کی مجموعی مالیت لگاکر اس میں سے واجب الادا  اخراجات، قرضہ جات منہا کرکے اگر وہ نصاب کے برابر بچتا ہے تو اس کی ڈھائی فیصد  زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 19):
"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلايعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولايعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء، فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں