میرے شوہر کے پاس صرف ڈیڑھ لاکھ روپے ہیں، جب کہ ہمارا اپنا کوئی گھر نہیں ہے،تو کیا میرے شوہر پر قربانی واجب ہے کہ نہیں؟
قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں (یعنی دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے بارہ ذوالحجہ کی مغرب تک) ذمہ میں واجب الادا قرض وغیرہ کے اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت سےزائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو ، تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے شوہر کے پاس موجودہ رقم قربانی کے دن ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو آپ کے شوہر پر قربانی واجب ہے ورنہ قربانی واجب نہیں ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".
(کتاب الزکاۃ ، الباب الثامن في صدقة الفطر ج: 1 ص: 191 ط: مکتبہ ماجدیہ)
فتاوی شامی میں ہے :
"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى) خانية (وسببها الوقت) وهو أيام النحر ".
(كتاب الأضحية ج: 6 ص: 312 ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما وقت الوجوب فأيام النحر فلا تجب قبل دخول الوقت؛ لأن الواجبات المؤقتة لا تجب قبل أوقاتها كالصلاة والصوم ونحوهما، وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر".
(کتاب التضحیة ، فصل في وقت وجوب الأضحية ج: 5 ص: 65 ط: دارالکتب العلمیه)
فتح القدير ميں ہے :
"أما شرائط الوجوب فاليسار الذي يتعلق به وجوب صدقة الفطر".
(کتاب الذبائح ، كتاب الأضحية ج: 9 ص: 506 ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101669
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن