بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث میں سے فرقہ ناجیہ (نجات پانے والا فرقہ) کون سا ہے؟


سوال

کچھ  لوگ بہت مایوس ہو چکے   ہیں، خاص کر یونیورسٹیوں اور  کالجوں والے یہ سولات زیادہ کرتے  ہیں کہ ایک حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں  72  فرقے بن  جائیں گے، ان میں سے ایک اہلِ  حق ہوگا۔  وہ کون سا ہے؟  بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ ہم  ہیں، اہلِ  حدیث کہتے  ہیں، ہم  ہیں، دیوبندی کہتے ہیں کہ ہم  ہیں؛ کیوں کہ  ان طالب علموں کا اپنا زیادہ وقت دنیاوی علوم میں صرف ہوتا ہے اور جب کبھی ٹائم ملتا ہے تو ایسے علماء کے بیانات اور اور کتابوں کو  پڑھتے ہیں  جو  گمرا ہوتے  ہیں اور ان پر یقین  کرلیتے ہیں،  برائے کرام اس کی وضاحت فرمائیں!

جواب

مذکورہ حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ نے امت کے  تہتر فرقوں میں تقسیم ہونے کا ذکر  فرمایا اور یہ کہ وہ سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک  کے، اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ وہ  (نجات پانے والا فرقہ) کون سا ہے؟ تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: ’’ما أنا علیه و أصحابي‘‘یعنی وہ  جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر  ہوگا، اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جو فرقہ  رسول اللہ ﷺ ، خلفائے راشدین اور  دیگر صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقہ پر کار بند ہے وہ حق پر ہے، جس کا مصداق  ’’اہلِ  سنت والجماعت‘‘ ہیں،  جن میں حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی داخل ہیں اور اس کے علاوہ تمام بدعتی اور گم راہ فرقے اس ’’فرقہ ناجیہ‘‘ سے خارج ہیں۔

مزید تفصیل اور وضاحت کے لیے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی  کتاب ’’اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم‘‘ کا مطالعہ کرلیجیے۔

لمعات التنقیح میں ہے:

"و عن عبدالله بن مسعود قال: خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطًا، ثم قال: هذا سبيل الله، ثم خط خطوطًا عن يمينه وعن شماله، وقال: هذه سبل، على كل سبيل منها شيطان، يدعو إليه وقرأ: {وأن هذا صراطي مستقيمًا فاتبعوه} الآية [الأنعام]

وفي شرحه: فإن قلت: كيف يعلم سبيل الله والسالك بها وسبل الشيطان والواقفون فيها؟

قلت: يعلم ذلك من نقل المتواتر والفحص عن أحوال السلف الصالح من الصحابة ومن بعدهم، وقد علم يقينًا أن هذه البدع في المذاهب والأقوال حدثت بعد الصدر الأول، والصحابة والتابعون لهم بإحسان لم يكونوا على ذلك، وكانوا متبرئين عنها وعن أهلها، رادين عليهم مذاهبهم، رادعين لهم عنها، والمحدثون أصحاب الكتب الستة وغيرها من الكتب المشهورة المعتمدة المعول عليها في الإسلام، والأئمة الفقهاء وأرباب المذاهب الأربعة، ومن هم في طبقتهم، كانوا على ذلك، وأن الأشاعرة والماتريدية إنما أبدوا مذهب السلف وأثبتوها  بدلائل عقلية ونقلية، ولذلك سموا أهل السنة والجماعة؛ لأخذهم بما ثبت من سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجرت عليه جماعة الصحابة، وما نطق به الحديث النبوي من قوله: (الذين هم على ما أنا عليه وأصحابي) صادق عليهم، وهم المصدوق عليهم له؛ لأنهم مقتدون بما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه رضي الله عنهم ، ولايتجاوزون عن ظواهر النصوص إلا لضرورة غير مسترسلين مع عقولهم وآرائهم، بخلاف من عداهم من المعتزلة ومن يحذو حذوهم ممن تشبث بالفلسفة واسترسل بآرائهم وأوهامهم."

(ج: 1، ص: 490، ط: دارالنوادر)

جامع ترمذی میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانيةً لكان في أمتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملةً وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملةً، كلهم في النار إلا ملة واحدة، قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: «ما أنا عليه وأصحابي»."

  (ج: 5، ص: 26، باب افتراق الأمة، ط: دار إحیاء التراث العربي)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت پر بھی وہی حالات آئیں گے جیسے بنی اسرائیل پر آئے، جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتاہے، یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی شخص نے اپنی ماں سے اعلانیہ بدکاری کی ہوگی تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو یہ کام کرے، اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں  بٹے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے  گی، سب جہنم میں ہوں گے سوائے ایک جماعت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس طریقے پر  میں اور میرے صحابہ ہیں  (اس کے مطابق چلنے والی جماعت)۔  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں