بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈینٹل کلینک کھولنے کی صورت میں نفع و نقصان کا حکم


سوال

میرےایک جاننے والے ہیں جو کہ ڈینٹسٹ ہیں،ہمارا ارادہ ایک ڈینٹل کلینک کھولنے کاہے،جس میں سرمایہ میرا ہوگا اور مریضوں کا علاج وہ کریں گے،ڈینٹل کلینک بنانے کا خرچہ تقریبا آٹھ سے دس لاکھ روپے ہوگا،کلینک کھولنے کے لیے جس سامان کی ضرورت ہوتی ہے اس میں فرنیچر،مشینری(Dental Equipment)،اوزارDental Instrument))،علاج میں خرچ ہونےوالا سامان اور دوائیاں(Dental Material) وغیرہ شامل ہے،مشینری کی قیمت بھی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی ہےیا خراب ہونے کی صورت میں مرمت یا تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہےاور ڈینٹل مٹیریل بھی مستقل مریضوں پر استعمال ہونے کی وجہ سے نیا خریدا جاتا ہے۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ سرمایہ میرا ہوگاجو سب میں خود خریدوں گا اور کلینک کی نگرانی(Look after) بھی میں خود کروں گا اور علاج ڈاکٹر کریں گے،تو نفع و نقصان کا تناسب کس طرح طے کریں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب تمام سرمایہ سائل کی طرف سے ہوگا اور سائل کا  جاننے والا  ڈاکٹر  صاحب صرف علاج  کریں گے تو اس سے  شرکت متحقق نہیں ہوگی،کیوں کہ شرکت  کے متحقق ہونے کے لیے دونوں شریکوں کی طرف سے سرمایہ کا ہونا ضروری ہے،لہٰذا سوال میں ذکرکردہ طریقے سے شرکت کرنا" شرکت فاسدہ"  ہوگی ۔

تاہم اگر  سائل کے ساتھ  ڈاکٹر صاحب  بھی اپنا کچھ سرمایہ شامل کرکےکاروبار میں شریک ہوجائیں  اور دونوں کام کریں یعنی ڈاکٹر مریضوں کا علاج کریں  اور سائل دیگر امور کی نگرانی کرے تو ایسی صورت میں باہمی رضامندی سے   جو مناسب سمجھیں نفع کے  فیصد کے اعتبار سے نفع کا تناسب طے کیا جاسکتاہے ، اور نقصان ہر ایک اپنے سرمایہ کے تناسب سے برداشت کرے گا ،نہ کہ طے شدہ فیصد کے اعتبار سے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكل شركة فاسدة فالربح فيها على قدر رأس المال كألف لأحدهما مع ألفين فالربح بينهما أثلاثا، وإن كانا شرطا الربح بينهما نصفين بطل ذلك الشرط، ولو كان لكل مثل ما للآخر وشرطا الربح أثلاثا بطل شرط التفاضل وانقسم نصفين بينهما؛ لأن الربح في وجوده تابع للمال، كذا في فتح القدير."

(كتاب الشركة،الباب الخامس في الشركة الفاسدة،2/ 335،ط:رشيدية)

رد المحتارمیں ہے:

"قلت: وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط، وهذا إذا كان العمل مشروطا كما يفيده قوله إذا شرطا العمل عليهما إلخ"

(کتاب الشركة،مطلب في شركة العنان،4/ 311،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال) لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة ولكل واحد منهما ربح ماله، كذا في السراجية. ولو شرطا العمل عليهما جميعا صحت الشركة، وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج. وإن عمل أحدهما ولم يعمل الآخر بعذر أو بغير عذر صار كعملهما معا، كذا في المضمرات. ولو شرطا كل الربح لأحدهما فإنه لا يجوز، هكذا في النهر الفائق."

(کتاب الشركة،الباب الثالث في شركة العنان،الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال،2/ 320،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں