بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دینی و دنیاوی تعلیم کے بارے میں مشورہ


سوال

 میں 18 سال کا ہوں میں نےOلیولز کیا ہے ،میں پارٹ ٹائم جاب بھی کر رہا ہوں۔ اب میں عالم کورس کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں لیکن میں اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوں کہ مجھے کم تنخواہ ملے گی اور کوئی عزت نہیں ملے گی۔ مجھے کیا کرنا چاہیے عالم بنوں یا دنیاوی تعلیم جاری رکھوں؟

جواب

جواب سے قبل بطور تمہید کے یہ جان لینا ضروری ہے کہ :

علم دین خالص اللہ کی رضا اور جنت حاصل کرنے  کے لیے حاصل کیا جاتا ہے، دنیاوی عزت اور مستقبل میں مال و دولت کمانے کے لیےنہیں ، اگر کوئی شخص دنیاوی فوائد اور مال جمع کرنے کی نیت سے علم دین حاصل کرتا ہے تو خسارے کے سوا کچھ نہیں پاتا،  جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی محدث العصر حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری ؒ فرماتے تھے :

"ہم تو چاہتے ہیں کہ حصولِ معاش کے تصور کو ختم کردیا جائے اور طالب علم صرف اللہ تعالیٰ کے دین کا سپاہی بنے، اس کے سوا زندگی کا کوئی مقصد اس کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ پر اس کا یقین اور اعتماد ہو کہ معاش کی فکر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرے"۔

نیز ان کا ارشاد تھا کہ:

"شقی اور ملعون ہے وہ شخص جو علم دین کو حصولِ دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے، ایسے بدبخت سے سر پر ٹوکری اُٹھا کر مزدوری کرنے والا بدرجہا بہتر ہے"۔

اس لیے جو شخص علم دین کے حصول کی کوشش کرے تو کامل اخلاص کے ساتھ علم دین حاصل کرے۔ جہاں تک دنیاوی عزت اور مال کا مسئلہ ہے تو جب انسان اخلاص کے ساتھ حصول دین کے بعد دین کی خدمت میں بھی اخلاص کے ساتھ لگتا ہے توا للہ تعالیٰ اُسے دنیاوی عزت ووجاہت سے بھی نوازتے ہیں اور اس کی ساری ضروریات بھی پوری فرمادیتے ہیں، اس لیے کہ رزق کے سارے خزانے اسی کےہاتھ میں ہیں۔آج تک یہ نہیں دیکھا گیا کہ اخلاص اور استغناء کے ساتھ دین کی خدمت کرنے والا فقر و فاقہ کا شکار ہوا ہو۔

دنیاوی شہرت ومفاد کے لیے اگر دین کا علم حاصل کرے اور یہ دنیاوی فوائد اسے حاصل بھی ہوجائیں تب بھی یہ شخص آخرت میں بڑا نقصان اٹھائے گا۔حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إن أول الناس يقضى عليه يوم القيامة رجل استشهد فأتي به فعرفه نعمه فعرفها قال فما عملت فيها ؟ قال قاتلت فيك حتى استشهدت قال كذبت ولكنك قاتلت لأن يقال جريء فقد قيل ثم أمر به فسحب على وجهه حتى ألقي في النار ورجل تعلم العلم وعلمه وقرأ القرآن فأتي به فعرفه نعمه فعرفها قال فما عملت فيها قال تعلمت العلم وعلمته وقرأت فيك القرآن قال كذبت ولكنك تعلمت العلم ليقال عالم وقرأت القرآن ليقال هو قارئ فقد قيل ثم أمر به فسحب على وجهه حتى ألقي في النار ورجل وسع الله عليه وأعطاه من أصناف المال كله فأتي به فعرفه نعمه فعرفها قال فما عملت فيها ؟ قال ما تركت من سبيل تحب أن ينفق فيها إلا أنفقت فيها لك قال كذبت ولكنك فعلت ليقال هو جواد فقد قيل ثم أمر به فسحب على وجهه ثم ألقي في النار " .

(مشکوۃالمصابیح، کتاب العلم ، الفصل الاول، ج:1،ص:44،ط:المکتب الاسلامی ، بیروت)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن پہلا آدمی جس پر (خلوص نیت کو ترک کر دینے کا) حکم لگایا جائے گا وہ ہوگا جسے (دنیا میں) شہید کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ (میدان حشر میں) وہ پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنی (دی ہوئی) نعمتیں یاد دلائے گا جو اسے یاد آجائیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے شکر میں کیا کام کیا؟ یعنی اللہ اسے اپنی نعمتیں جتا کر الزاماً فرمائے گا کہ تونے ان نعمتوں کے شکرانہ میں کیا اعمال کیے؟ وہ کہے گا میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے ؛کیوں کہ  تو اس  لیے لڑا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے چنانچہ تجھے (بہادر کہا گیا) اور تیرا اصل مقصد مخلوق سے حاصل ہوا اب مجھ سے کیا چاہتا ہے، پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل کھینچا جائے، یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر (دوسرا) وہ آدمی ہوگا جس نے علم حاصل کیا، دوسروں کو تعلیم دی اور قرآن کو پڑھا چنانچہ اسے بھی (اللہ کے حضور میں) لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو (اپنی عطا کی ہوئی) نعمتیں یاد دلائے گا جو اسے یاد آجائیں گی پھر اللہ پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے شکر میں کیا اعمال  کیے؟ وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا اور دوسروں کو سکھایا اور تیرے ہی  لیے قرآن پڑھا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے تو علم محض اس  لیے حاصل کیا تھا؛ تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس  لیے پڑھا تھا؛ تاکہ تجھے لوگ قاری کہیں، چنانچہ تجھے (عالم و قاری) کہا گیا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر (تیسرا) وہ آدمی ہوگا جس کو اللہ نے (معیشت میں) وسعت دی اور ہر قسم کا مال عطا فرمایا۔ اس کو بھی اللہ کے حضور میں لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو (اپنی عطا کی ہوئی) نعمتیں یاد دلائے گا جو اسے یاد آجائیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے شکر میں کیا اعمال  کیے ؟ وہ کہے گا میں نے کوئی ایسی راہ نہیں چھوڑی جس میں تو خرچ کرنا پسند کرتا ہو اور تیری خوشنودی کے  لیے میں نے اس میں خرچ نہ کیا ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے خرچ اس  لیے کیا تاکہ تجھے (سخی) کہا جائے اور تجھے (سخی) کہا گیا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔" (ترجمہ از مظاہر حق)

اس روایت سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل اخلاص سے خالی ہو تو وہ ثواب کے بجائے انسان کے لیے وبال بن سکتا ہے، لہذا علم دین حاصل کرنے والے کو کامل اخلاص کے ساتھ اس علم کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا لازم ہے۔

لہذا اگر آپ اخلاص کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کرسکتےہیں اور معاشی اعتبار سے اس دورانیہ میں کسی پریشانی کی وجہ سے خلل کا اندیشہ نہ ہوتو اخلاص کے ساتھ یہ علم حاصل کریں، دنیاوی ضروریات اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے خزانوں سے پورا فرمادیں گے، اس کی ذات پر کامل اعتماد رکھا جائے۔

اور اگر کوئی شخص مکمل آٹھ  سالہ درس نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا تو ملازمت پیشہ افراد کے لیے مختصر دو سالہ دراسات دینیہ کے نام سے ایک نظام تعلیم موجود ہے، جس کا دورانیہ بھی مختصر ہوتا ہے، ایسے افراد اس کورس کے ذریعہ دین کی بنیادی تعلیم مستند علماء کی نگرانی میں حاصل کرلیں، ایک صورت یہ ہے کہ پہلے دینی علم حاصل  کریں پھر اس کے بعد دنیوی علم حاصل  کرلیں،تاکہ دینی اعتبار سے گمراہی نہ ہو یا دنیوی علم حاصل کرنے کے بعد دینی علم حاصل کرے، تاکہ دونوں جہاں میں کامیابی حاصل ہو۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100672

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں