بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات میں مصروف و غیر مصروف عملے کو برابر تنخواہ دینا


سوال

دینی مدارس میں درجۂ کتب کی چھٹیاں شعبان سے ہوجاتی ہیں جب کہ شعبہ تحفیظ القرآن اور دیگر دفتری عملہ مصروف رہتا ہے اور تنخواہیں سب کو برابر ملتی ہیں حالانکہ اصولی طور پر مصروف عملے کو ڈبل مشاہرہ ملنا چاہیے جیساکہ سرکاری اداروں میں ہوتا ہے، کیا سب کو ایک ہی تنخواہ دینا خیانت یا ناانصافی کے زمرے میں نہیں آتا؟اگر آپ کا سوال ہوگا کہ اختیاری تو پھر چھٹیوں والے عملے کو اختیاری طور پر مشاہرہ نہیں ملنا چاہیے، اس چیز کو مدنظر رکھ کر جواب دیں کہ یہ اصول کسی سرکاری یا پرائیوٹ ادارے میں نہیں ہے جب کہ قرآن کریم پڑھانے کا کام سب سے اہم ہے مگر اس کے کرنے والے کی اس قدر بے توقیری کیوں کی جاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تدریس کے مشاہرے کا مدار اور سالانہ تعطیلات کا تعین تقرری کے وقت ہونے والے معاہدے پر ہوتا ہے، شعبۂ تحفیظ اور دفتری عملے سے تقرری کے وقت جب معاہدے میں ہی طے ہوجاتا ہے کہ شعبان و رمضان کی تعطیلات نہیں ہوں گی اوران دو مہینوں میں   تنخواہ طے شدہ ہی ملے گی اور شعبۂ تحفیظ کا استاذ اور دفتری عملہ اسے قبول کرلیتا ہے تو پھر اسے شکوے کا حق حاصل نہیں ہے۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"إذا وقع عقد الإجارة صحيحا على مدة  أو مسافة وجب تسليم ما وقع عليه العقد دائما مدة الإجارة."

(كتاب الإجارة، الفصل الثاني عشر في صفة تسليم الإجارة، 15/ 94 ، ط: رشيدية) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم ‌البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم ‌البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة."

(كتاب الوقف، مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم ‌البطالة،  4/ 372، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101448

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں