بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈمنشیا کے مریض کے معاملات اور تصرفات کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کو 2015 میں ڈمنشیا  (dementia) بیماری کا دورہ پڑا، اس بیماری کی تفصیل یہ ہے کہ:   یہ ایک دماغی بیماری ہے اور اس میں انسان چیزوں کو بھول جاتا ہے اور بھولنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اچھے برے اور صحیح غلط میں فرق نہیں کرپاتا۔

یہ بیماری شروع میں تو کچھ کم تھی اور پھر کچھ بہتر بھی ہوگئی اور 2017 میں دوبارہ والد صاحب کو یہ دورہ پڑا اور اس وقت یہ بیماری کچھ  زیادہ تھی اور والد صاحب چیزوں کو بہت زیادہ بھولنے لگ گئے تھے اور ان کے معاملات بہت پیچیدہ ہونے لگ گئے تھے، پھر اس کے بعد والد صاحب  نے تمام مالی معاملات اپنی بیٹی کے حوالے کردیے اور جب والد نے معاملات اپنی بیٹی کے حوالے کیے تو اس وقت والد محترم کی یہ کیفیت تھی کہ  تھوڑا بہت سمجھانے سے سمجھ جاتے تھے اور اپنی بات کو سمجھا بھی دیتے تھے، لیکن بہت زیادہ معاملات میں  نہیں پڑتے تھے، بس 10 سے 15 منٹ تک اپنا ذہن استعمال کرسکتے تھے، اس سے زیادہ نہیں۔

اور  2021 میں والد صاحب کی کیفیت مزید کمزوری کی طرف چلی گئی تھی  اور اب 2022 میں ان کی صورتِ حال  بہتر ہوئی ہے، یعنی بالکل لاشعوری  نہیں ہے، بلکہ سمجھ سکتے ہیں۔

اب مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ سوالات پوچھنے ہیں کہ :

1۔ والد نے 2017 میں اپنے معاملات کا بہن کو وکیل بنایا تھا، تو اب کیا والد کی جب ایسی حالت ہے، تو بھی وکالت باقی رہے گی؟

2۔ اگر بیٹی اس حالت میں والد کے مال سے کوئی جائیداد اپنے نام پر خریدے، تو کیا وہ اس کی مجاز ہوگی؟

3۔ بیٹی (میری بہن) اور میری والدہ  کسی بھی معاملہ میں ہم بھائیوں سے پوچھے بغیر کوئی بھی اقدام کرنے کی مجاز ہیں؟

4۔ کیا والد اولاد کو ہدیہ کرنے میں فرق کر سکتے ہیں؟ یعنی اولاد میں سے کسی کو کچھ زیادہ دیں اور باقی کو کم دیں؟ اور اگر کسی وجہ سے فرق کرسکتے ہیں، تو کتنا فرق کرسکتے ہیں؟ والد صاحب اپنی جائیداد کا تقریباً ٪ 50 حصہ اپنی بیٹی کو صرف خدمت کی وجہ سے اور غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے دینا چاہتے ہیں، تو کیا والد کا اس طرح کرنا درست ہے؟ جب کہ ہم بھائی بھی آج تک والد کی خدمت سے کسی طرح پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ 

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے والد نے اپنی بیٹی کو 2017 میں اپنے تمام معاملات کا وکیل بنایا تھا، تو یہ وکالت درست تھی اور اب جب تک والد اپنی بیٹی کو وکالت سے معزول نہ کریں، بیٹی ان کی طرف سے ان کی موت تک  وکیل برقرار رہےگی، البتہ اگر والد صاحب کی حالت درست ہوگئی ہو اور وہ بیٹی کو وکالت سے معزول کر کے تمام معاملات اپنے کنٹرول میں لینا چاہیں، تو ایسا کر سکتے ہیں۔

2، 3۔ صورتِ مسئولہ میں  بیٹی والد کے مالی معاملات کی وکیل ہے اور وکیل کی حیثیت امین کی  ہوتی ہے، لہٰذا اگر بیٹی والد کی رقم محفوظ کرنے کی خاطر کوئی جائیداد خریدے، تو شرعاً اس کی اجازت ہے، البتہ یہ جائیداد والد ہی کی شمار ہوگی، اگر چہ بیٹی نے اپنے نام ہی سے  کیوں نہ خریدی ہو، بیٹی کو والد کے مال سے اپنے لیے جائیداد خریدنے کا اختیار نہیں ہے۔

اور جن معاملات کا والد نے اپنی بیٹی کو وکیل بنایا ہے، ان معاملات میں سائل کی بہن اپنے بھائیوں کو پوچھے بغیر جائز اقدام کر سکتی ہے، تاہم والدہ اپنی ذاتی معاملہ میں خود مختار ہے، سائل کے والد کی جانب سے وکیل نہیں ہے۔

4۔واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا ہے،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے۔

اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو دینا اور باقی کو محروم کرنا یہ شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اگراولاد میں سے کسی  کو خدمت وغیرہ کی وجہ سے نسبتاً کچھ زیادہ دینا چاہیں، تو دے سکتے ہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد اگرا پنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا چاہیں تو تمام اولاد کے درمیان برابر سرابر تقسیم کریں، البتہ  بیٹی کواگر اس کی خدمت  کی بنیاد پر دوسروں سے کچھ زائددینا چاہیں، تو دے سکتے ہیں، بشرطیکہ اس میں دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو،  لیکن اپنی جائیداد کا تقریباً ٪50 فی صد حصہ صرف اپنی بیٹی کو دےدینا درست نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(وأما شرطها) فأنواع: منها ما يرجع إلى الموكل وهو أن يكون ممن يملك فعل ما وكل به بنفسه، فلا يصح التوكيل من المجنون والصبي الذي لا يعقل أصلا......................

والمجنون الذي يجن ويفيق إذا وكل في حال جنونه لا يصح وإن وكل في حال إفاقته يجوز."

(كتاب الوكالة، ج:3، ص:561، ط:دار الفكر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو ‌وهب ‌رجل ‌شيئا ‌لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره."

(كتاب الهبة، ج:4، ص:391، ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں