کیا آن لائن ارننگ کا کام جائز ہے ؟ کام کی ارننگ کے لیے پہلے پیسے انویسٹمنٹ کرنے پڑتے ہیں۔ آن لائن ارننگ کا طریقہ کاركچھ یو ں ہے:
کمپنی کا نام GORSAGE TRON ڈیجیٹل کرنسی، اس میں ارننگ کے لیے پہلے اپنے پیسے لگانے پڑتے ہیں۔اس کے بعد جس بندے نے آپ کو اس کمپنی میں کام پر لگایا ہے اس سے بھی آپ کو پرافٹ آئے گا اور آپ خود جتنے لوگوں کو اس کام پر انوائیٹ کر کے جوائنٹ کروائیں گے اس سے بھی آپ کو نفع آئے گا، مطلب آپ کے اپلائن اور ڈائون لائن میں کام کرنے والوں سے بھی منافع آئے گا ۔ کیا یہ والا آنلائن ارننگ کا کام درست اور جائز ہے کیا ؟
واضح رہے کہ شریعت میں بلا محنت کی کمائی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرت تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔
لہذا جس معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن اس طرح کسی سائٹ کی پبلسٹی کرناکہ جس میں چین در چین کمیشن ملتا رہے جب کہ اس نے بعد والوں کی خریداری میں کوئی عمل نہیں کیا ، اور اس میں بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی خاص محنت شامل نہیں ہوتی ، بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہوتا ہے اور یہ دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھانا جو کہ استحصال کی ایک شکل ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔
حاصل یہ ہے کہ کسٹمر کو لانے والے شخص کا اس پہلے کسٹمر کے لانے پر کمیشن کا لین دین تو جائز ہے، لیکن اس کے بعد چین در چین یہ سلسلہ چلنا کہ ہر بعد والے کسٹمر کا کمیشن بھی پہلے والے شخص کو ملتا رہے یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ جس بھی کمپنی یہ بنیادی خرابی ہو اس کمپنی کا ممبر بننا جائز نہیں ہوگا۔
نیز ڈیجیٹل کرنسی کا معاملہ بھی تاحال مشکوک ہے، اسے قانونی حیثت بھی حاصل نہیں ہے، اس کے ذریعے بھی معاملات سے اجتناب لازم ہے، لہذا آپ نے جس قدر تفصیل ذکر کی ہے، اس کے مطابق مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا یا اس کا ممبر بننا جائز نہیں ہے۔
شعب الإيمان (2/ 434):
" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 47):
" قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لايقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز؛ لما كان للناس به حاجة، ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل، وذكر أصلاً يستخرج منه كثير من المسائل، فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي".
وفیه ايضا (6 / 63):
"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه، كدخول الحمام".
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144206200693
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن