بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قریۂ کبیرہ میں جمعہ کا قیام جائز ہے


سوال

ہمارے گاؤں کی کل آبادی تقریباً 2500 افراد  پرمشتمل ہے،اور اسی طرح ہمارے گاؤں  میں فقط جنرل سٹورـ(پرچون کی دکانیں)ہیں،جبکہ ہمارے گاؤں سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چوک ہے جس میں کچھ ضروریات زندگی میسر ہیں،مکمل نہیں،اسی طرح ہمارے گاؤں سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر دوسرا چوک ہے اس میں اکثر ضروریات زندگی میسر ہیں،مثلاً کپڑے کی دکانیں،جوتوں کی دکانیں،سونے کی دکان وغیرہ اور اس چوک میں پہلے سے جمعہ بھی ہوتا ہے،لیکن اس میں  تھانہ اور کچہری وغیرہ نہیں ہے،

اب سوال یہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں جمعہ پڑھانا شریعت کے اعتبار سے درست ہے  یا نہیں ؟جبکہ ہمارے گاؤں سے لے کر ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر جو چوک ہے اس کی آبادی تقریباً متصل ہے درمیان میں  اتنا زیادہ انقطاع نہیں ہے،ہمارا گاؤں دوسرے گاؤں ساتھ ملا ہوا ہے اور اسی طرح دوسرا گاؤں اس چوک کے ساتھ ملا ہوا ہے اب اس اتصال کا اعتبار کرتے ہوئے جمعہ درست ہے یا نہیں؟

جواب

جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے علاقے کا مصر یا فناء ِ مصر یا قریۂ کبیرہ ہونا ضروری ہے، "قریۂ کبیرہ" اس علاقے کو کہا جاتاہے جس کی آبادی کم از کم ڈھائی ہزار یا اس سے متجاوز ہو،صورت ِ مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق ان کے علاقے اور اس سے متصل علاقوں کی آبادی 2500 ہے تو اس مذکورہ علاقے پر قریۂ کبیرہ  کی تعریف صادق آرہی ہے،لہٰذا اس علاقے میں جمعہ کی جماعت قائم کرنا شرعاً درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء مجتبى لظهور التواني في الأحكام وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه فليحفظ (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا،

(قوله وفي القهستاني إلخ) تأييد للمتن، وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق."

(کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ،2/ 138،ط: سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"(ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں) جو بستی ایسی ہو کہ وہاں گلی کوچے ہوں، محلے ہوں،ڈاکخانہ ہو، حکیم ہو یا ڈاکٹر ہو، مقدمات ونزاعات کا فیصلہ کرنے کےلیے عدالت یا پنچایتی نظام ہو، روز مرہ کی ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں(یہ بات نہ ہو کہ ہفتہ میں ایک دن بازار لگا اور ضروریات خرید لیں، پھر ضرورت پیش آئی تو انتظار کرنا پڑا، یا دوسری بستی میں جانا پڑا)، ضروری پیشہ ور ہوں، ایسی بستی قریہ کبیرہ ہے۔ ہمارے اطراف میں دو ڈھائی ہزار کی آبادی میں آج کل عموماً یہ سب علامات جمع ہو جاتی ہیں، وہاں جمعہ پڑھا جائے جو بستی ایسی نہ ہو وہاں ظہر پڑھی جائے۔"

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508102040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں