بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دیہات میں جمعہ کی نماز کا قیام


سوال

کیا دیہات میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے؟

جواب

حدیث میں آتا ہے کہ جمعہ اور عیدین کی نماز صرف بڑے شہر میں ہی ادا کی جاسکتی ہے۔ نیز نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی مدینہ ہی میں جمعہ قائم کیا جاتا تھا، آس پاس کے دیہاتوں میں جمعہ قائم نہیں کیا جاتا تھا۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ نے فتوحات کے بعد صرف شہروں میں ہی جمعہ کے قیام کا اہتمام کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ جمعہ قائم کرنے کے لیے شہر ہونا شرط ہے۔ اور جمعہ چوں کہ شعائرِ اسلام میں سے ہے،  اس کے مناسب بھی یہی ہے کہ وہ بڑی جگہوں پر ہی قائم کیا جائے۔ چنانچہ  جمعے کے قیام کے لیے شہر یا ایسی بستی ہونا ضروری ہے جس میں انسانی ضروری حاجات میسر ہوں، ان ضروریات کی موجودگی میں ایسی بستی کو شہر قصبہ یا بڑا گاؤں کہا جائے گا۔ وہاں گلی کوچے ہوں، محلے ہوں، ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں، ڈاکٹر کے کلینک ہوں، ڈاکخانے اور پنچایت کا نظام ہو، ضروری پیشہ ور موجود ہوں، آس پاس دیہات والے اپنی ضروریات وہاں سے پوری کرتے ہوں۔ یہ معاملہ مردم شماری پر موقوف نہیں ہے، بلکہ آبادی پر موقوف ہے اور آبادی اگر ڈھائی تین ہزار ہو تو اس میں جمعہ جائز ہے۔

اور جس جگہ جمعے کی نماز کا قیام درست ہے وہاں امام کے علاوہ تین بالغ مرد مقتدی ہوں تو جمعہ کی نماز ادا ہوجائے گی۔

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"سوال : دو گاؤں کے درمیان ایک کوس کا فاصلہ ہے اور پہلے گاؤں کی آبادی تین ہزار کی ہے اور دوسرے گاؤں میں تین مسجدیں ہیں اور جمعہ ہوتا ہے۔ پہلے گاؤں اور دوسرے گاؤں میں جمعہ فرض ہے یا نہیں؟

جواب : پہلا گاؤں بڑا ہے، اس میں جمعہ فرض ہے اور دوسرا گاؤں بھی اگر ایسا ہی بڑا ہے تو وہاں بھی فرض ہے۔" (ج۵ / ص۱۰۷)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 259):

"ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعًا منهم على أن المصر شرط؛ ولأن الظهر فريضة فلا يترك إلا بنص قاطع والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 138):

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں