دین اسلام میں دینی باتوں ، معلومات اور تعلیم کے ساتھ غیر ضروری آوازوں کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ جو آج کل سوشل میڈیا پر نظر آرہی ہے۔ دینی باتوں کی ویڈیوز کے بیک گراونڈ میں غیر معمولی آوازیں اَپ لوڈ کرتے ہیں۔موسیقی کا استعمال ہوتا ہے۔ انسانی آواز جیسے ( اوں اوں اں آں ۔ھم ھم وغیرہ وغیرہ) جب کہ دینی اور دنیاوی تعلیمی نظام میں تعلیمات دیتے ہوئے غیر معمولی آوازوں کی موجودگی ایک نا پسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ حرکت دین اسلام میں جائز ہے ۔ جب کہ یہ حرکت غیر مسلم لوگوں اپنی مذہبی ویڈیوز میں کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ دینی بیانات اگر بیان کرنے والے کی ویڈیو یا تصویر کے ساتھ ہوں تو ایسی ویڈیوز کابنانا اور دیکھنا جائزنہیں۔ علماءِ کرام سے استفادہ کے لیے براہِ راست ان کی مجالس میں شرکت کرکے ان کے بیان سن لیے جائیں، یا ان کے آڈیو بیان سن لیے جائیں۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ موسیقی کی حقیقت موسیقی کے آلات کے استعمال پر موقوف نہیں، بلکہ موسیقی کی حقیقت سُر، راگ، دورانیوں اور آوازوں کی ترتیب میں پائی جاتی ہے۔ منہ سے موسیقی جیسی آوازیں پیدا کرنابھی ماہرین فن کے نزدیک موسیقی میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور موسیقی یا اس کے آلات بنانا، اس کا استعمال کرنا اور اس کا سننا نا جائز اور حرام ہے، خواہ وہ میوزک گانوں کے ساتھ ہو یا حمد و نعتیہ کلمات کے ساتھ یا دینی وعظ و بیانات کے ساتھ، لہذا کسی دینی بیان کے ساتھ موسیقی(موسیقی چاہے آلات کے ذریعہ پیدا کی جائے یا انسانی منہ کے ذریعہ) شامل کرنا جائز نہیں، بلکہ دینی تعلیم کی بے ادبی ہے۔
تفسیر قرطبی میں ہے:
"فأما ما ابتدعه الصوفية اليوم في الإدمان على سماع الأغاني بالآلات المطربة من الشبابات و الطار و المعازف و الأوتار فحرام".
(تفسیر القرطبی، ج:14، ص:40، س:لقمان، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)
البحرالرائق میں ہے:
"في المعراج: الملاهي نوعان: محرم وهو الآلات المطربة من غير الغناء كالمزمار سواء كان من عود أو قصب كالشبابة أو غيره كالعود والطنبور لما روى أبو أمامة أنه عليه الصلاة والسلام قال «إن الله بعثني رحمة للعالمين وأمرني بمحق المعازف والمزامير» ولأنه مطرب مصد عن ذكر الله تعالى".
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق (7/ 88)،بَابُ مَنْ تُقْبَلُ شَهَادَتُهُ وَمَنْ لَا تُقْبَلُ، كتاب الشهادات،الناشر: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144308100689
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن