بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دین میں دعوتی گشت کی کیا حیثیت ہے؟


سوال

 تبلیغی جماعت کے ساتھی گشت کی بہت فضیلت بتاتے ہیں، اور کہتے ہے کہ جس طرح بدن کے اندر ریڑھ کی ہڈی کا مقام ہے، ٹھیک اسی طرح اسلام کے اندر گشت کا مقام ہے، ان کے مطابق گشت کے بغیر دین نہیں ہے ۔

شریعت میں گشت کا کیامقام اور کیا فضیلت ہے؟

مفصل اور مدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائے عین نوازش ہوگی۔

جواب

واضح رہے کہ تبلیغی جماعت میں رائج گشت کا مقصد عوام الناس کو دین سیکھنے اور مسجد سے جوڑنے کے لیے تیار کرنا ہے، جس کے لیے خصوصی گشت، عمومی گشت اور وصولی گشت کی اصطلاحات مروج ہیں، مروجہ طریقہ نہ ہی فرض ہےاور نہ واجب، البتہ اخلاص نیت،  اور اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لیے اگر کیا جائے تو استحباب کے درجہ میں ہے، کیوں کہ تبلیغ دین کے لیے لوگوں سے ملاقات کرنا بے اصل بھی نہیں، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا بنفس نفیس مختلف قبائل کے پاس دعوتِ توحید کی غرض سے جانا، اور مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تبلیغ دین کے لیے بھیجنا ثابت ہے۔

پس اسی بنیاد پر بانی جماعت دعوت و تبلیغ  حضرت مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ  نے عوام الناس کو   دین سے  جوڑنے، اور مسجد کے پاکیزہ ماحول میں رہنے، اور جماعت کی نماز میں پابندی کرنے اور مسجد کو آباد رکھنے کے لیے، اور دین سیکھنے کے لیے بسہولت  وقت نکالنے پر آمادہ کرنے کے لیے گشت کا سلسلہ شروع فرمایا تھا، جس کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم مروجہ گشت کی کوئی خاص فضیلت ہمارے علم میں نہیں، اور سائل نے اپنے سوال میں بھی بیان کردہ فضائل کی نشاندہی نہیں کی، لہذا اس گشت کو دین کے لیے ریڑھ کی ہڈی بتانا، اور اس کے بغیر دین نہیں کہنا، یہ ساری باتیں غلط ہیں، کیوں کہ تبلیغی جماعت کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے دین کا باقی نہ رہنا لازم آئے گا، حالانکہ دین اس سے قبل بھی باقی تھا، لہذا  اس قسم کی باتوں  سے اجتناب لازم ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"یہ تحریک اصل حقیقت کے اعتبار سے تو اسلام کی بنیادی چیز ہے کیونکہ اللہ تعالی کا نام اس کے بندوں کو پہنچانا اور ان کے گھروں پر جاکر خود پہنچانا ہی اصل تبلیغ ہے، قرون اولی میں ہر شخص بجائے خود یہ خدمت انجام دیتا اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کو پیش نظر رکھتا تھا۔ اس لئے اس وقت جماعتیں بنانے اور کسی نظام کی جداگانہ قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً اور کئی کئی مل کر یہ خدمت انجام دیتے تھے مگر اس وقت یہ خدمت کلمہ پڑھانے اور نماز سکھانے کی صورت میں ہوتی تھی یعنی غیر مسلم کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتے اور نماز وغیرہ سیکھتے تھے قرآن مجید پڑھتے اور یاد کرتے تھے آنحضرت ﷺ نے بعض کو فردا اور بعض کو دوسرے رفقاء کے ساتھ تبلیغ اسلام و تعلیم احکام کے لئے بھیجا ہے، آج کل بد قسمتی سے مسلمانوں کو کلمہ صحیح یاد کرا یا جاتا ہے اور ان کو گھیر کر مسجد میں نماز کے لئے لایا جاتا ہے غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے جانے کا موقع ہی دستیاب نہیں ہوتا ان نام کے مسلمانوں کی حالت اصلاح پذیر ہو تو پھر غیر مسلموں کی طرف توجہ کی جائے۔"

(کتاب العلم، پہلا باب: دینی تعلیم اور تبلیغ، فصل اول: دینی تعلیم اور تبلیغ کی فضیلت، بعنوان: کیا مروجہ طریقہ تبلیغ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے زمانہ میں بھی تھا؟، ٢ / ٣٣ - ٣٤، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506101390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں