بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دین کے کسی حکم کا مذاق اڑانا


سوال

غصے اور چرچراہٹ پن کی وجہ سے اگر یہ الفاظ بولے ہوں کہ مشت زنی کرنا گناہ یا حرام ہے ، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ "قیامت کے دن مشت زنی کرنے والا اس طرح آئے گا کہ اس کے ہاتھ پر حمل ہوگا"،  تو غصے اور چرچراہٹ پن کی وجہ سے کہنے والے نے یوں کہا کہ ہاتھ کے بجائے رانوں سے اور جسم کے دوسرے حصے سے مشت زنی کر لو تو اس وعید سے بچ جاؤ گے،  جب کہ اس کا یہ جملہ طنزیہ اور مذاق  اڑانے کی غرض سے  تھا   کہ میں نے یا ہم نے اس کا حل نکال لیا تو ایسی صورت میں اس شخص کا تجدید نکاح کرنا ضروری ہے ؟جب کہ اس کو اس کے کہنے پر پچھتاوا ہے اور غصے اور چرچراہٹ پن کی وجہ سے اس نے ایسا کہا تھا!

جواب

واضح رہے کہ شریعت کے کسی حکم کو ہلکا سمجھنا، اس کا مذاق اڑانا کفر ہے ، جانتے بوجھتے ایسا کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ، اور اس پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح (شادی  شدہ ہونے کی صورت میں )لازم ہوئی ہے ، البتہ اگر کسی جگہ تأویل ممکن ہو تو حتی الامکان تاویل کرکے اس کو کفر سے بچایا جائے گا۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں حدیث میں مذکور وعید کو بیان کرکے ا س سے  بچنے کا حل بتانے سے کفر تو  لازم نہیں آئے گا،  تاہم مذکورہ جملے  اور طرزِ عمل درست نہیں ہے، اس سے  استخفاف او ر توہین  کا  پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے؛  اس لیے  ایسی باتوں سے اجتناب  لازم ہے،  اور احتیاطًا تجدیدِ  ایمان و  نکاح  کر لینا بہتر ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) اعلم أنه (لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو) كان ذلك (رواية ضعيفة) كما حرره في البحر، وعزاه في الأشباه إلى الصغرى. وفي الدرر وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر وواحد يمنعه فعلى المفتي الميل لما يمنعه.

"أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط".

(کتاب الجهاد ، باب المرتدج: 4 ص: 229 / 230 ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"ووجهه أن السنة أحد الأحكام الشرعية المتفق على مشروعيتها عند علماء ‌الدين، فإذا أنكر ذلك ولم يرها شيئا ثابتا ومعتبرا ثابتا في ‌الدين يكون قد استخف بها واستهانها وذلك ‌كفر تأمل".

(‌‌‌‌كتاب الصلاة ، باب صفة الصلاة ج: 1 ص: 474 ط: سعید)

مجمع الأنہر میں ہے :

"ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها ‌كفر".

(باب المرتد ، ‌‌ألفاظ الكفر أنواع ج: 1 ص: 695 ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم".

(کتاب الجهاد ، باب المرتد ج: 4 ص: 224 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100744

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں