بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دین اسلام میں تعزیت کا حکم


سوال

ہمارے علاقہ بلوچستان میں میت والے گھر میں کم و بیش پانچ دنوں تک  اپنے سارے کام ترک کرکے کسی جگہ  تعزیت کے لیے بیٹھتے ہیں اور عزیز و اقارب کی آمد و رفت جاری رہتی ہے اور ہر آنے والا جہری دعاکرواتا ہے ، محلہ کے امام صاحب کو میت کے ورثاء کے ساتھ  تین دن تک بیٹھنا لازمی ہوتاہے  اور اس کا اس حد تک التزام کیا جاتا ہے کہ اگر امام نہ بیٹھے تو اس کو معزول کیا جاسکتا ہے ، اور پھر تیسرے اور چوتھے دن  خیرات کےنام پر سب مہمانوں کو کھا نا کھلایا جاتا ہے جو کہ فرض سمجھا جاتا ہے ، اگر ورثاء خیرات نہ کریں تو لوگ طعنہ دیتے ہیں  بعض ورثاء قر ض  لے کر بھی یہ خیرات کرتے ہیں ،  ان تمام موقعوں پر علاقہ کے بعض علماء شریک ہوتے ہیں اور دلیل کے طور پر سنت سے ثابت تعزیت کو پیش کرتے ہیں۔ چونکہ میں خود اس علاقہ کی ایک مسجد کا امام ہوں اس  لیے رہنمائی درکار ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کےبعد درج ذیل سوالات کے جواب مطلوب ہیں:

1۔شرعی تعزیت کا طریقہ کیاہے؟

2۔مذکور ہ بالا مروجہ تعزیت کا شرعی حکم؟

3۔صورت مذکورہ میں علاقہ کے علماء کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

4۔امام مسجد  کے لیے ان رسومات میں بحالتِ مجبوری شامل ہونا جائز ہے یا نہیں؟

5۔انتقال کے چوتھے یا پانچویں دن خیرات کو لازمی سمجھا جاتا ہے ، اس کا کیا حکم ہے؟

6۔تین دن سوگ نہ منانے کا کیا حکم ہے ؟ یعنی فوتگی پر بالکل سوگ نہ منایا جائے؟

7۔ان حالات میں امامت چھوڑ کر دین کے کسی دوسرے شعبہ میں خدمات انجام دینے کے متعلق آپ حضرات کی رائے مطلوب ہے۔

جواب

1۔واضح رہے کہ کسی مسلمان کے انتقال پر میت کے متعلقین سے تعزیت کرنا ( یعنی ان کو تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا ) سنت سے ثابت ہے، تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا اگر موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے،  ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے، تعزیت کے الفاظ اور مضمون متعین نہیں ،صبر اور تسلی کے لیے جو الفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہے، تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے:

’’إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَهٗ مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى‘‘/ یا’’أَعْظَمَ اللّٰهُ أَجْرَكَ وَ أَحْسَنَ عَزَائَكَ وَ غَفَرَ لِمَیِّتِكَ‘‘.

اس سے زائد بھی ایسا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے جس سے غم ہلکا ہوسکے اور آخرت کی فکر پیدا ہو۔

2۔ تعزیت میں دو باتیں ہوتی ہیں ،ایک میت کے گھر والوں کو تسلی اور صبر کی تلقین کرنا اور دوسرا میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا، بعض علاقوں میں صرف ہاتھ اٹھا کرفاتحہ یاکچھ اور پڑھ لیتے ہیں اور زبان سے تعزیت کے کوئی کلمات ادا نہیں کرتے ،یہ طریقہ درست نہیں؛ کیوں کہ میت کے گھر تو تعزیت کے  لیے جانا ہوتا ہے فاتحہ وغیرہ تو دوسری جگہ سےادا ہوجاتا ہے   ۔بقیہ  مروجہ طریقہ میں دیگر  باتیں  سنت سے ثابت نہیں اور جب ان کو اس قدر لازم سمجھ لیا گیا ہو کہ نہ کرنے والوں کو لعن طعن کی جاتی ہو ، امام کو معزول کردیاجاتا ہو تو  ان کا ترک کرنا واجب ہے۔

3۔صورتِ  مذکورہ میں علاقہ کے علماء کی ذمہ داری یہ ہے کہ پہلے تو  خود مروجہ  رسومات میں شریک ہونے سے اجتناب کریں ، تاکہ کوئی ان کی شرکت کو دلیل نہ بنائے ،اورتمام  علماء اس مسئلہ میں مسنون طریقہ پراتفاق کریں اور قرآن کی آیت :"وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (54)" کے مصداق بنتے ہوئےامت کے عقائد اور اعمال کی فکرکریں  اور عوام الناس کو  درس اور جمعہ کے خطبوں میں تعزیت کےمسنون طریقہ سے آگاہ کرتے ہوئے مروجہ  بدعات سے اجتناب کرنے کی تاکید کریں ۔

4۔مسجد کے امام کو چاہیے کہ  حتی الوسع ان رسومات میں شریک ہونے سے اجتناب کرے  اور بصورت مجبوری اگر شریک ہونا پڑے تو وہاں جاکر ان کے درمیان موقع کی مناسبت سے مروجہ غیر مسنون طریقہ کی حکمت کے ساتھ تردید کرے اور سنت طریقہ کو بیان کرے ۔

5۔امام قاضی خان رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ مصیبت کے دنوں میں ضیافت(کھانا کھلانا) کرنا مکروہ ہے؛ کیوں کہ جو کام خوشی کے وقت ہو وہ غمی کے مناسب نہیں ہےاور حدیث اور فقہ کی عبارات اس پر شاہد ہے کہ کسی کی وفات پر میت کے گھر والوں کے لیے اہل محلہ اور رشتہ دار کھانا تیار کریں،  لیکن میت کے گھر والے  کھانا کھلائیں اور اس کے لیے قرض لیں یہ بہت بڑا گناہ ہے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"کنا نری الاجتماع إلی أهل میت و صنعة الطعام من النیاحة. ابن ماجه."

ہم(یعنی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم)میت کے گھر جمع ہونے کو اور میت کے گھر کھاناتیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے ۔

اور نوحہ کہتے ہیں میت پر آواز کے ساتھ رونا،اور یہ اہل جاہلیت کا کام تھااسی بناء پر تمام جمہور سلف و خلف کے نزدیک یہ حرام ہےلہذا اسی طرح  میت کے گھر کھانے کو بھی سمجھا جائے،اس سے معلوم ہوا کہ میت کے گھر اجتماع کرنا اور وہاں کھانا تناول کرنا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نزدیک نوحہ جیسا ایک جرم تھا اور اس امر پر ان کا اجماع و اتفاق رہا ہے۔۔(ماخوذ از راہ سنت ۔ص:262)

6۔دین  اسلام میں سنت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلوں پر دل و جان سے رضامندی کا اظہار کرے اور اگر غم کی شدت ہو تو تسلی کے لیے تین دن تک  سوگ منانا مباح  ہے ، لہذا اگر کوئی بالکل بھی سوگ نہیں مناتا تو شرعا یہ افضل ہے ۔

7۔ان حالات میں ثابت قدمی کے ساتھ حق کی دعوت دینا آپ کی ذمہ داری ہے اور دعوت کے ساتھ دعا جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ پر محنت فرماتے ہوئے دن میں دعوت دیتے اور حکمت کے ساتھ حق بات پہنچانے کی ہر ممکن کوشش فرماتے اور رات میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں آنسو بہاتے کیوں کہ  دل کا نظام  تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور اگر کسی صورت اصلاح نہیں ہوتی بلکہ خود راہ حق سے ہٹنے کا اندیشہ ہو تو پھر  دین کے کسی دوسرے شعبہ سے وابستہ ہونا چاہیے۔

صحیح البخاری میں ہے:

4323 - حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى رضي الله عنه، قال: لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين بعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس، فلقي دريد بن الصمة، فقتل دريد وهزم الله أصحابه، قال أبو موسى: وبعثني مع أبي عامر، فرمي أبو عامر في ركبته، رماه جشمي بسهم فأثبته في ركبته، فانتهيت إليه فقلت: يا عم من رماك؟ فأشار إلى أبي موسى فقال: ذاك قاتلي الذي رماني، فقصدت له فلحقته، فلما رآني ولى، فاتبعته وجعلت أقول له [ص:156]: ألا تستحيي، ألا تثبت، فكف، فاختلفنا ضربتين بالسيف فقتلته، ثم قلت لأبي عامر: قتل الله صاحبك، قال: فانزع هذا السهم فنزعته فنزا منه الماء، قال: يا ابن أخي أقرئ النبي صلى الله عليه وسلم السلام، وقل له: استغفر لي. واستخلفني أبو عامر على الناس، فمكث يسيرا ثم مات، فرجعت فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم في بيته على سرير مرمل وعليه فراش، قد أثر رمال السرير بظهره وجنبيه، فأخبرته بخبرنا وخبر أبي عامر، وقال: قل له استغفر لي، فدعا بماء فتوضأ، ثم رفع يديه فقال: «اللهم اغفر لعبيد أبي عامر». ورأيت بياض إبطيه، ثم قال: «اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس». فقلت: ولي فاستغفر، فقال: «اللهم اغفر لعبد الله بن قيس ذنبه، وأدخله يوم القيامة مدخلًا كريمًا»

(باب غزوۃ اوطاس،ج:5،ص:155،حدیث:4323،ط:دار طوق النجاۃ)

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله: وبتعزية أهله) أي تصبيرهم والدعاء لهم به. قال في القاموس: العزاء الصبر أو حسنه. وتعزى: انتسب. اهـ. فالمراد هنا الأول، وفيما قبله الثاني فافهم. قالفي شرح المنية: وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن، لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من عزى أخاه بمصيبة كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة» رواه ابن ماجه وقوله عليه الصلاة والسلام «من عزى مصابا فله مثل أجره» رواه الترمذي وابن ماجه. والتعزية أن يقول: أعظم الله أجرك، وأحسن عزاءك، وغفر لميتك. اهـ."

(مطلب فی الثواب علی المصیبة،ج:2،ص:239،ط:دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و وقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله وهذا إذا لم ير منهم جزع شديد فإن رئي ذلك قدمت التعزية ويستحب أن يعم بالتعزية جميع أقارب الميت الكبار والصغار والرجال والنساء إلا أن يكون امرأة شابة فلا يعزيها إلا محارمها، كذا في السراج الوهاج.ويستحب أن يقال لصاحب التعزية: غفر الله تعالى لميتك وتجاوز عنه وتغمده برحمته ورزقك الصبر على مصيبته وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلا عن الحجة.

و أحسن ذلك تعزية رسول الله صلى الله عليه وسلم «إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى."

(کتاب الصلاۃ، الباب الحادی و العشرون فی الجنائز، الفصل السابع في الشھید، ج:1، ص:167، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں