بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دین ابراہیمی اور دین حنیف کی تعریف


سوال

دینِ ابراہیمی اور دینِ حنیف کیا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  ہر نبی کے ہر دور میں اس کے ذریعہ سے آئے ہوئے دین کو دین اسلام کہا جاتا ہے ،اور عند اللہ مقبول تھا،اور وہ یکے بعد دیگرے منسوخ ہوتا چلا گیا ،پس اس  لحاظ سے دین ابرہیم علیہ السلام  دین اسلام ہی ہے اور اور حنیف اسی دین اسلام کی صفت ہے ، اللہ تعالی نے قرآن میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کے حنیف اور مسلم ہونے کا اعلان فرمایا ،اور اسی معنی کے لحاظ سے حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا "و امرت ان اكون من المسلمين" اور حضرت عیسی علیہ  السلام کے حواریین نے کہا "واشهد بانا مسلمون"۔لیکن آخر میں جب یہ سلسلہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر ٹھرا تو دین حق ،دین حنیف(خالص) اور دین اسلام دین محمدی کا نام و لقب بن گیا اور قیامت تک یہی جاری رہے گا۔البتہ  شریعت    مختلف زمانوں اور مختلف امتوں میں مختلف تھی ۔

روح المعانی میں ہے:

"‌إِنَّ ‌الدِّينَ ‌عِنْدَ ‌اللَّهِ ‌الْإِسْلامُ جملة مبتدأة وقعت تأكيدا للأولى، وتعريف الجزئين للحصر- أي لا دين مرضي عند الله تعالى سوى الإسلام- وهو على ما أخرج ابن جرير عن قتادة «شهادة أن لا إله إلا الله تعالى والإقرار بما جاء من عند الله تعالى وهو دين الله تعالى الذي شرع لنفسه وبعث به رسله ودل عليه أولياءه لا يقبل غيره ولا يجزى إلا به» ."

(سورہ آلِ عمران،آیۃ:19 ج:2،ص:103،ط:دار الکتب العلمیۃ)

معارف القرآن میں ہے :

"عربی زبان میں لفظ دین کے چند معنی ہیں، جس میں ایک معنی ہیں طریقہ اور روش، قرآن کریم کی اصطلاح میں لفظ دین ان اصول و احکام کے لئے بولا جاتا ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب انبیاء میں مشترک ہیں، اور لفظ " شریعت " یا " منہاج " یا بعد کی اصطلاحات میں لفظ " مذہب " فروعی احکام کے لئے بولے جاتے ہیں، جو مختلف زمانوں اور مختلف امتوں میں مختلف ہوتے چلے آئے ہیں، قرآن کریم کا ارشاد ہے :"شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا" یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین جاری فرمایا جس کی وصیت تم سے پہلے نوح (علیہ السلام) کو اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو کی گئی تھی "

اس سے معلوم ہوا کہ دین سب انبیاء (علیہم السلام) کا ایک ہی تھا، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے جامع کمالات اور تمام نقائص سے پاک ہونے اور اس کے سوا کسی کا لائق عبادت نہ ہونے پر دل سے ایمان اور زبان سے اقرار، روز قیامت اور اس میں حساب کتاب اور جزا و سزا اور جنت و دوزخ پر دل سے ایمان لانا اور زبان سے اقرار کرنا، اس کے بھیجے ہوئے ہر نبی و رسول اور ان کے لائے ہوئے احکام پر اسی طرح ایمان لانا۔ اور لفظ " اسلام " کے اصلی معنی ہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا، اور اس کے تابع فرمان ہونا، اس کے معنی کے اعتبار سے ہر نبی و رسول کے زمانہ میں جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کے لائے ہوئے احکام میں ان کی فرمانبرداری کی وہ سب مسلمان اور مسلم کہلانے کے مستحق تھے، اور ان کا دین دین اسلام تھا، اسی معنی کے لحاظ سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا "وامرت ان اکون من المسلمین " اور اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو اور اپنی امت کو امت مسلمہ فرمایا " ربنا واجعلنا مسلمین لك ومن ذریتنا امة مسلمة لك" اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین نے اسی معنی کے اعتبار سے کہا تھا "واشھد بانا مسلمون"۔۔۔خلاصہ یہ ہوا کہ ہر نبی کے زمانہ میں ان کا لایا ہوا دین ہی دین اسلام اور عنداللہ مقبول تھا، جو بعد میں یکے بعد دیگرے منسوخ ہوتا چلا آیا، آخر میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین دین اسلام کہلایا، جو قیامت تک باقی رہے گا،"

(سورہ آلِ عمران،ج:2،ص:36،ط:مکتبہ معارف القرآن)

تفسیر عثمانی میں ہے:

"سامنے گردن ڈال دینے کا اقرار کرتا ہے۔ گویا "اسلام" انقیاد و تسلیم کا اور "مسلمانی" حکمبرداری کا دوسرا نام ہوا۔ یوں تو شروع سے اخیر تک تمام پیغمبر یہ ہی مذہب اسلام لے کے آئے اور اپنے اپنے زمانہ میں اپنی اپنی قوم کو مناسب وقت احکام پہنچا کر طاعت و فرمانبرداری اور خالص خدائے واحد کی پرستش کی طرف بلاتے رہے ہیں لیکن اس سلسلہ میں خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام دنیا کو جو اکمل، جامع ترین، عالمگیر اور ناقابل تنسیخ ہدایات دیں، وہ تمام شرائع سابقہ حقہ پر مع شی زائد مشتمل ہونے کی وجہ سے خصوصی رنگ میں اسلام کے نام سے موسوم و ملقب ہوئیں ۔"

(سورہ آلِ عمران،ج:1،ص:255،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں