"دینِ حرج" کس کو کہتے ہیں؟ اور ’’وما جعل علیكم في الدین من حرج‘‘کا کیا مطلب ہے؟
لفظ ’’حرج‘‘ کا معنیٰ ہے تنگی اور ’’دینِ حرج‘‘ کا مطلب ہے وہ دین جس میں تنگی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دینِ حرج نہیں بنایا جس کی وجہ سے دینِ اسلام کے احکام پر عمل کرنا ہر مؤمن مرد و عورت کے لیے ممکن اور آسان ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بنایا ہے، دین میں جتنے احکام ہیں وہ سب (مجموعہ انسانیت کے اعتبار سے) آسان ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنے اقوال و اعمال کے ذریعے دینی احکام کی تشریح کرکے ان کے مراتب بھی متعین فرمادیے ہیں، ان میں غلو کرنا اور حدِ اعتدال سے تجاوز کرنا دین میں سختی ہے، جس سے منع کیا گیا ہے، نیز تنگی کے مواقع کی مناسبت سے دینی احکام میں مزید آسانی بھی رکھی گئی ہے، جس کی نظیر سابقہ شریعتوں میں نہیں ہے، مثلًا: مالِ غنیمت کا حلال طیب ہونا، پانی دست یاب نہ ہونے کی صورت میں مٹی سے تیمم کی اجازت، روئے زمین پر ہر پاک جگہ نماز ادا کرنے کی اجازت وغیرہ وغیرہ۔
سوال میں سورۂ حج کی آیت نمبر 78 کا ایک جز ذکر کیا گیا ہے: ’’وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ‘‘، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’اور اس (اللہ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کسی قسم کی تنگی نہیں کی‘‘۔ اس جز کا صحیح مطلب سمجھنے کے لیے ذیل میں مکمل آیت اور اس کا ترجمہ و تفسیر ذکر کی جاتی ہے:
{وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ} [سورة الحج: 78]
ترجمہ: الله کے کام میں خوب کوشش کیا کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے، اس نے تم کو ( اور امتوں سے) ممتاز فرمایا ہے اور (اس نے) تم پر دین (کے اَحکام) میں کسی قسم کی تنگی نہیں کی، تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی (اس) ملت پر (ہمیشہ) قائم رہو، اس الله نے تمہارا لقب مسلمان رکھا ہے، (نزولِ قرآن سے) پہلے ہی اور اس (قرآن) میں بھی؛ تاکہ تمہارے (قابلِ شہادت اور معتبر ہونے کے) رسول (علیہ السلام) گواہ ہوں اور اس شہادتِ رسول (علیہ السلام) کے قبل تم لوگوں کے مقابلہ میں گواہ (تجویز) ہو، سو تم لوگ خصوصیت کے ساتھ نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیتے رہو اور الله کی رسی کو پکڑے رہو، وہ تمہارا کارساز ہے، (کسی کی مخالفت تم کو حقیقتاً ضرر نہ کرے گی)، سو کیا اچھا کارساز ہے اور کیا اچھا مددگار ہے۔ (بیان القرآن)
تفسیر معارف القرآن میں ہے:
’’دین میں تنگی نہ ہونے کا مطلب بعض حضرات نے یہ بیان فرمایا کہ اس دین میں ایسا کوئی گناہ نہیں ہے جو توبہ سے معاف نہ ہوسکے اور عذابِ آخرت سے خلاصی کی کوئی صورت نہ نکلے۔ بخلاف پچھلی امتوں کے کہ ان میں بعض گناہ ایسے بھی تھے جو توبہ کرنے سے بھی معاف نہ ہوتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ سخت و شدید احکام ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کیے گئے تھے جن کو قرآن میں إصر و أغلال سے تعبیر کیا گیا ہے، اس امت پر ایسا کوئی حکم فرض نہیں کیا گیا۔
بعض حضرات نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ تنگی ہے جس کو انسان برداشت نہ کرسکے۔ اس دین کے احکام میں کوئی حکم ایسا نہیں جو فی نفسہ ناقابلِ برداشت ہو۔ باقی رہی تھوڑی بہت محنت و مشقت تو وہ دنیا کے ہر کام میں ہوتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے پھر ملازمت، تجارت و صنعت میں کیسی کیسی محنتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، مگر اس کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کام بڑے سخت و شدید ہیں۔ ماحول کے غلط اور مخالف ہونے یا ملک و شہر میں اس کا رواج نہ ہونے کے سبب جو کسی عمل میں دشواری پیش آئے وہ عمل کی تنگی اور تشدد نہیں کہلائے گی، کرنے والے کو اس لیے بھاری معلوم ہوتی ہے کہ ماحول میں کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہیں، جس ملک میں روٹی کھانے پکانے کی عادت نہ ہو وہاں روٹی حاصل کرنا کس قدر دشوار ہوجاتا ہے وہ سب جانتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روٹی پکانا بڑا سخت کام ہے۔
اور حضرت قاضی ثناء اللہ رحمہ اللہ نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ دین میں تنگی نہ ہونے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ساری امتوں میں سے اپنے لیے منتخب فرما لیا ہے، اس کی برکت سے اس امت کے لوگوں کو دین کی راہ میں بڑی سے بڑی مشقت اٹھانا بھی آسان بلکہ لذیذ ہوجاتا ہے، محنت سے راحت ملنے لگتی ہے، خصوصاً جب دل میں حلاوتِ ایمان پیدا ہوجائے تو سارے بھاری کام بھی ہلکے پھلکے محسوس ہونے لگتے ہیں، حدیث صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جعلت قرّة عيني في الصلاة‘‘، یعنی نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک کردی گئی ہے۔ (رواه أحمد و النسائي و الحاكم و صححه)۔‘‘
(تفسیر معارف القرآن، ج:6، ص:289-290، ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208200060
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن