بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دین دار کو صدقہ دینا مسجد میں قرآن پاک رکھنا


سوال

۱۔ کسی ضرورت مند کو صدقہ دیتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ نمازی یا دین دار ہے کہ نہیں یا کسی کو بھی صدقہ دیا جا سکتا ہے جو ضرورت مند ہو اس سے ثواب پر کوئی اثر پڑھتا ہے ؟

۲۔ امام مسجد کو پیسے دینے کا ثواب ہوتا ہے؟

۳۔ مسجد میں قرآن رکھنا کہ لوگ تلاوت کریں گے، اسی طرح مسجد کے واش روم میں صابن وغیرہ رکھنا درست ہے؟

جواب

۱۔ بے نمازی محتاج اور غریب آدمی کو صدقہ وغیرہ دینے سے  بھی صدقہ کا ثواب  ملے گا۔البتہ نیک شخص کو صدقہ وغیرہ دینا  گناہ گار شخص کو صدقہ دینے سے بہتر ہےاور نیک شخص کو صدقہ دینے میں ثواب بھی زیادہ ہے بہ نسبت گناہ گار شخص کے ۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

"و يجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحًا مكتسبًا، كذا في الزاهدي."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 353):

"(و) كره (نقلها إلا إلى قرابة) بل في الظهيرية: لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم (أو أحوج) أو أصلح أو أورع أو أنفع للمسلمين (أو من دار الحرب إلى دار الإسلام أو إلى طالب علم) وفي المعراج التصدق على العالم الفقير أفضل (أو إلى الزهاد أو كانت معجلة) قبل تمام الحول فلا يكره خلاصة."

۲۔   جو پیسے امام مسجد کو دیے جائیں اگر وہ زکوۃ یا صدقاتِ واجبہ کے نہ ہوں تو یہ امام مسجد کو دینا جائز ہے، بلکہ امام مسجد کو دینے میں زیادہ ثواب ہے اور  اگر وہ رقم زکوۃ یا صدقاتِ  واجبہ کی ہے اور امامِ مسجد  صاحبِ نصاب ہے تو اس کو زکاۃ یا صدقاتِ واجبہ کی رقم دینا جائز نہیں ہے اور اگر امامِ مسجد صاحبِ نصاب نہیں ہے ،  بلکہ مستحق اور غریب ہے تو اس کو زکاۃ وغیرہ کی رقم دینے میں بھی ثواب زیادہ ہے، البتہ یہ رقم (زکات وغیرہ) تنخواہ کے طور پر نہیں دی جاسکتی۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 187):

التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهل كذا في الزاهدي.

۳۔ زکوۃ کی رقم سے قرآنِ کریم خرید  کرمسجد میں رکھنا جائز نہیں ہے؛   ایسا کرنے کی صورت میں تملیک نہ پائے جانے کی وجہ سے وہ زکوة  ادا نہ ہو گی؛ کیوں کہ  مسجد میں مالک بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ البتہ ویسے ہی (یعنی زکاۃ اور صدقات واجبہ کے علاوہ  نفلی صدقے یا عطیے کی )  رقم  سے قرآنِ کریم خرید کر یا صابن وغیرہ خرید کر مسجد میں رکھے جائے تو یہ جائز ہے اور صدقہ جاریہ ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."

(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج: 1، صفحہ: 170، دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں