میرے شوہر نے مجھے کہا کہ: "میں طلاق دے دوں گا ان شاء اللہ"، پھر لعنت ملامت کی، پھر کہا: "دی تجھے، دی تجھے، دی" مذکورہ الفاظ سے کتنی طلاقیں واقع ہوئی؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کے پہلے جملے "میں تجھے طلاق دے دوں گا، ان شاء اللہ" سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ شوہر نے بعد میں جو جملے ادا کیے تھے کہ: "دی تجھے، دی تجھے، دی" ان الفاظ سے پہلے چوں کہ طلاق دینے کا کہا تھا، لہٰذا مذکورہ الفاظ سے سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، سائلہ اپنےشوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح ہوسکتاہے، سائلہ اپنی عدت (تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو اور اگر حاملہ ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
قرآن مجید میں ہے:
"فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعۡدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهُ". (سورۃ البقرۃ، اٰیت نمبر:230)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، باب، فیما تحل به المطلقة، ج:1، ص:473، ط:دار الفکر)
فتاویٰ قاسمیہ میں ہے:
سوال (۶۷۱۶): کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ زید نشہ کی حالت میں اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے کہ ’’میں تجھے رکھوں گا نہیں، میں تجھے طلاق دوں گا‘‘ پھر زید نے کہا ’’دی ، دی، دی‘‘ تو کیا صورت مسئولہ میں زید کی بیوی زید کے نکاح سے نکل جاتی ہے یانہیں؟ پھر زوجین بن کر رہنے کی کوئی صورت ہے؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں بیوی پر طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہے؛ کیونکہ مذاکرہ ٔطلاق میں ’’دی، دی، دی‘‘ کے الفاظ، طلاق ہی کے لئے ہیں اورحالت نشہ میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
(فتاویٰ قاسمیہ، ج:15، ص:424، مکتبہ اشرفیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101904
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن