ڈیبٹ کارڈ کے استعمال پر ڈسکاؤنٹ لینا جائز ہے؟
ڈیبٹ کارڈ (Debit Card)کے استعمال پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کے جائز اور ناجائز ہونے میں درج ذیل تفصیل ہے:
1۔ ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں کچھ پیسوں کی رعایت (Discount) اگر بینک کی طرف سے ملتی ہو تو اس صورت میں اس رعایت کا حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔
2۔ اگر یہ رعایت اس ادارے کی جانب سے ہو جہاں سے کچھ خریدا گیاہے یاوہاں کھاناکھایاگیاہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔
3۔ اگر رعایت دونوں کی طرف سے ہو تو بینک کی طرف سے دی جانے والی رعایت درست نہ ہوگی۔
4۔ رعایت نہ تو بینک کی طرف سے ہو اور نہ ہی جس ادارے سے خریداری ہوئی ہے اس کی طرف سے ہو، بلکہ ڈیبٹ کارڈ بنانے والے ادارے کی طرف سے رعایت ہو، تو اگر اس ادارے کے تمام یا اکثر معاملات جائز ہوں اور ان کی آمدن کل یا کم از کم اکثر حلال ہو تو اس صورت میں ڈسکاؤنٹ سے مستفید ہونے کی اجازت ہوگی۔
5۔ اگر معلوم نہ ہوکہ یہ رعایت کس کی طرف سے ہے تو پھر اجتناب کرنا چاہیے۔
و فيمصنف ابن أبي شيبة (4/327):
’’حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص، عن أشعث، عن الحكم، عن إبراهيم، قال: كل قرض جر منفعة، فهو ربًا.‘‘
فتاویٰ شامیمیں ہے:
’’ (قوله : كل قرض جر نفعاً حرام) أي إذا كان مشروطاً كما علم مما نقله عن البحر. ‘‘
( مطلب كل قرض جر نفعاً حرام ٥/ ١٦٦ ط: سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
’’ولايجوز قرض جر نفعاً، بأن أقرضه دراهم مكسرةً بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاماً في مكان بشرط رده في مكان آخر ... و في الخلاصة: القرض بالشرط حرام. ‘‘
( فصل في بيان التصرف في المبيع و الثمن ٦/ ١٣٣، ط:دار الكتب الاسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144205200571
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن