بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیبٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ سے خریداری کی صورت میں ڈسکاؤنٹ کا حکم


سوال

اسلامی اور غیر اسلامی بینک اپنے ڈیبیٹ کارڈز (ATM / Debit Card) پر مختلف خریداری (آن لائن اور فزیکل خریداری دونوں) پہ ڈسکاؤنٹ آفر کرتے ہیں (جیسے 20 فیصد، 40 فیصد، وغیرہ وغیرہ)۔

کیا یہ ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ اسلامی اور غیر اسلامی بینک دونوں کے لحاظ سے جواب گزارش ہے۔

جواب

 واضح رہے کہ ڈیبٹ کارڈز  (ATM / Debit Card)بنوانا اور اس کا استعمال کرنا بذات خودجائز ہے، اس کارڈ کے ذریعہ آدمی اتنے ہی پیسوں کی خریداری کرسکتا ہے جتنی رقم اس کے اکاؤنٹ میں موجود ہے، اس کے حاصل کرنے کے لیے سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا، اورسود لینے دینے کی نوبت نہیں آتی، البتہ ڈیبٹ کارڈکے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں اگر کچھ پیسوں کی رعایت (Discount) ملتی ہے  تو اس کے حکم میں درج ذیل تفصیل ہے:

معلوم کرنا چاہیے کہ وہ رعایت بینک کی طرف سے مل رہی  ہے یا جہاں سے خریداری کی ہے ان کی طرف  سے؟

1)اگر یہ رعایت بینک کی طرف سے ملتی ہوتو اس صورت میں رعایت حاصل کرنا شرعاً  جائز نہیں  ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔

2)البتہ اگر یہ رعایت  اس ادارے کی جانب سے ہو جہاں سے خریداری کی جارہی ہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔

3)اوراگر یہ بات پتہ نہ چل سکتی ہو کہ یہ رعایت کارڈ ہولڈر کو بینک یا متعلقہ ادارے کی طرف سے مل رہی ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ ڈیبٹ کارڈ سے مذکورہ سہولت حاصل نہ کی جائے۔

ملحوظ رہے کہ   سودی اور مروجہ اسلامی بینک  اس حکم میں برابر ہے؛کیوں کہ  مروجہ اسلامی بینکوں کے معاملات مکمل طور  پر شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے مروجہ اسلامی بینکوں کے ساتھ بھی صرف اتنے ہی معاملات رکھنے کی گنجائش ہے جتنی سودی بینکوں کے ساتھ ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے:

"قال (ويجوز للمشتري ‌أن ‌يزيد للبائع في الثمن ويجوز للبائع ‌أن ‌يزيد للمشتري في المبيع، ويجوز أن يحط من الثمن ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك) فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا."

 (كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:6، ص:519، ط:دار الفكر، لبنان)

الموسوعة الفقهية الكويتية "میں ہے:

"يجوز للمشتري الحط من المبيع، ويجوز للبائع الحط من الثمن، إذا قبل الطرف الآخر في مجلس الحط، ويستوي أن يكون الحط بعد التقابض أو قبله، فلو حط المشتري أو البائع  بعد القبض كان للآخر حق الاسترداد للمحطوط.ولا يشترط لجواز حط البائع من الثمن أن يكون المبيع قائما؛ لأن الحط إسقاط، ولا يلزم أن يكون في مقابلة شيء..من المقرر عند فقهاء الحنفية أن الزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد السابق بطريق الاستناد، ما لم يمنع من ذلك مانع."

 (البيع، الحط من المبيع أو الثمن، ج:9، ص:30، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(القرض)هوعقد مخصوص يرد على دفع مثلي ليرد مثله...(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا..."(وكان عليه ‌مثل ‌ما ‌قبض) فان قضاه اجود بلا شرط جاز و يجبر الدائن على قبول الاجود و قيل لا هذا هو الصحيح."

(‌‌‌‌باب المرابحة والتولية، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:161، 165،166 ط:سعيد)

وفیه أیضا:

"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر."

(کتاب البیوع،فصل فی القرض،ج:5،ص:166،ط:سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن قرض جر منفعة وسماه ربا"

(كتاب الصرف، باب القرض و الصرف فيه، ج 14، ص 35، ط :دار المعرفة بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى نفس القرض فهو أن لا يكون فيه جر منفعة فإن كان لم يجز... أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن قرض جر نفعا ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا لأنها فضل لا يقابله عوض والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب."

( كتاب القرض، فصل في الشروط، ج:10، ص:597، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں