ہماری الیکٹرانک آئٹم کی کمپنی ہے ،ہم اپنی پراڈکٹ جہاں عام ڈیلر کو فروخت کرتے ہیں وہیں بسا اوقات بعض مخصوص علاقوں میں کسی کو اپنا "ڈسٹری بیوٹر" بنادیتے ہیں۔پھر وہی ڈسٹری بیوٹر اس پورے علاقے میں مال سپلائی کرتا ہے ،گویا اس علاقہ میں وہ ہماری کمپنی کانمائندہ ہوتا ہے ،اس معنی میں کہ ہماری کمپنی کا مال اس علاقہ میں وہی فروخت کرتا ہے۔
ڈسڑی بیوٹر کو ہم مال فروخت کرتے ہیں اور اس سے اس مال کے پیسے وصول کرلیتے ہیں ،اس کے بعد وہ سامان اس کی ملکیت میں آجاتا ہے اور وہ رقم ہماری ملکیت میں آجاتی ہے ،لیکن ہم کمپنی کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے اور کاروبار کو محفوظ کرنے اور ترقی دینے کے لیے ڈسٹری بیوٹر سے ایکMemorandum of Understanding (مفاہمت نامہ )پر دستخط کرواتے ہیں کہ ہم دونوں اپنے کاروبار میں ان باتوں کے پابند ہوں گے۔
یہ مفاہمت نامہ ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے ،آپ سے درخواست ہے کہ اس کے نکات سے متعلق راہ نمائی فرمادیں کہ آیا ان میں کسی میں شرعی طور پر کوئی خرابی تو نہیں ہے؟اگر خرابی ہے تو ہمارے مذکورہ مفاہمت نامہ کے مطابق اس کا کوئی حل ہے ؟اگر حل ہو تو براہ کرم اس سے مطلع فرمادیں تاکہ ہم اس کے مطابق معاہدہ کی تصحیح کردیں۔
یہ ہمارا موجودہ نظام ہے جو کہ مندرجہ ذیل مفاہمت نامہ میں مذکور ہے،اس سے قبل شق نمبر 5 اور 6 پر دوسرے طریقہ سے عمل ہوتا تھا جس کی تفصیل مفاہمت نامہ کے بعد ذکر کی جاتی ہے۔
یہ مفاہمتی یادداشت اس تاریخ کوبنائی گئی----------------------
جناب : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شناختی کارڈنمبرپارٹیA ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہائش:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹیB۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ معاہدہ اوپردرج پارٹیزکے درمیان ایک سال کے لیے طے ہواجس کی تاریخ: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر سال کے اختتام پر اس معاہدہ کی تجدید کی جائے گی۔
پارٹیAکی ذمہ داریاں:
1. پارٹیAپارٹیBکومخصوصAccessoriesمصنوعات کےلیے مخصوص علاقہ میں ڈسٹری بیوٹر بناتی ہے۔
2. پارٹیAپارٹیBکوسوفٹ وئیرمہیاکرے گی اوراس کی تربیت دے گی۔
3. پارٹیAپارٹیBکےFinancialمعاملات کی ذمہ دارنہیں ہوگی اورنہ ہیRecoveryمیں حصہ لے گی۔
4. پارٹیAپارٹیBکوMarketing Sales نمائندہ کی صورت میں سپورٹ مہیاکرے گی جوکہ نئے گاہک ڈھونڈنے میں مدددے گی اوربرانڈImageکے لیے وقتاًفوقتاًATLاورBTL Activitiesکرے گی۔
5. پارٹیA پارٹیBکے کمیشن کی مدمیں7%کے حساب سے ہربل پردے گی جوکہ قیمت خریدکے اوپرہوگی۔
خلاصہ:
پارٹیAہرSales invoiceپر7%Commissionكی مد میںminusكركے دیتیہے۔
مثلاً:
100,000 | Invoice sales value |
7,000 | 7% commission |
93,000 | Net receivable |
6. پارٹیAکواختیارہوگاکہ وہ اپنی پروڈکٹ کی قیمت میں اضافہ یاکمی کی مجازہوگی اوران سب کااطلاق ڈیلرکے پاس موجوداسٹاک پربھی ہوگا۔
خلاصہ:
پارٹیAقیمت فروخت طے کرتی ہے اور پارٹیBکو اختیار نہیں کہ اپنی مرضی کی قیمت پر مال بیچ سکے۔
اس صورت میں پارٹیBكے پاسموجود اسٹاک پر قیمت بڑھنے پر جو منافع ہوتا ہے وہ اُسی کا ہوتا ہے اور قیمت کم ہونے پر جو نقصان ہوتا ہے وہ بھی اُسی کا ہوتا ہے۔
7. پارٹیAمخصوص قسم کاانسینٹووقتاًفوقتاًتقسیم کارکودے سکتی ہے جس کااطلاق مخصوص شرائط وضوابط کے حساب سے ہوگا۔
8. پارٹیAفروخت کی قیمت طے کرے گی۔
9. پارٹیAپارٹیBکوسامان اس کی مجوزہ جگہ پہنچانے کی ذ مہ دارہوگی۔
10. سیل کی بہتری کے لیے پارٹیAمختلف قسم کی پالیسیاں لائے گی جس کااطلاق پارٹیBپرلازم ہوگا۔
1 .پارٹیBابتدائی طورپر1.5mکی سرمایہ کاری کرے گی اورآہستہ آہستہ مارکیٹ بڑھنے کے ساتھ سرمایہ کاری کوبڑھائے گی۔
2 .پارٹیBنے ابتدائی دوماہ کے لیے2.5m ماہانہ کاSale Target پر اتفاق کیا ہے جو مارکیٹ کے حجم کے حساب سے وقت کے ساتھ بڑھے گا۔
3 .پہلاآرڈر1.5mکاہوگا۔
4 .پارٹیBاپنے مجازعلاقہ کے علاوہ سیل نہیں کرے گی۔
5 .پارٹیBکے تمام اسٹاک پارٹیAسے کیش کی بنیادپرلے گی۔
6 .پارٹیBاسٹاک کی کم سے کم مقدارکوپارٹیAکے اصول سے منتخب کرے گی۔
7 .پارٹیBکمپنی کے مجازسوفٹ وئیرکوپہلے دن سے استعمال کرے گی۔
8.پارٹیBکومکمل اختیارحاصل ہوگا کہ وہ مارکیٹ سے تمام ادھارکوواپس لے قطع نظرا س کے کہ آرڈرکسی نے بھی بُک کیاتھا،اس سلسلے میں پارٹیAکے مجازافسرمعاونت کے لیے مارکیٹ میں موجودہوں گے۔
9. پارٹیBکی ذمہ داری ہوگی کہ کم ازکم دس دن کااسٹاک اپنے پاس موجودرکھے۔
10. پارٹیBپارٹیAکی تمام پروڈکٹس کااسٹاک اپنے پاس رکھے گی بشمول نئی پروڈکٹس کے ۔
11. پارٹیBپروڈکٹس کوصاف ستھری اورمعیاری جگہ پررکھے گی۔
12. پارٹیA کواختیارہوگاکہ وہ پارٹیBکی تمام تر تفصیلات بمع سیلزاورStockکوکسی بھی وقت چیک کرسکتی ہے ۔
13. پارٹیBاپنے مجازعلاقہ میں نئی دکان متعارف کرائے گی۔
14· پارٹیAکی اجازت کے بغیرپارٹی Bمارکیٹ میں کسی بھی قسم کی آفرنہیں دے سکتی۔
15· پارٹیBاپنے وسائل کواستعمال کرتے ہوئے شاپ کی تعدادبڑھائے گی۔
16· پارٹیBاس بات کویقینی بنائے گی کہ وہ اسٹاک انوائس کے اگلے دن لازمی مہیاکرے گی ۔
17· پارٹیBانوینٹری کی ڈیمانڈ اگلے کوارٹرکے لیے کم ازکم ایک ماہ پہلے دے گی۔
18· پارٹیBتحریری طورپرPurchases کی درخواست دے گی۔
19· پارٹیBتمام قسم کی خط وکتابت مخصوص کیے گئے اسٹاف سے کرے گی۔
20· پارٹیBپابندہوگی کہ کمپنی کی پالیسی پرعمل کرے ۔
21· پارٹیBکمپنی کے مخصوص افسرسے تعاون کرے گی۔
22· پارٹیBکسی بھی قسم کامال واپس کرنے کے لیے کمپنی سے پہلے منظوری لے گی۔
23· پارٹیBکی ذمہ داری ہوگی کہ وہ تمام اسٹاک کووصول کرتے وقت لازمی چیک کرلے اورDamagesکی صورت میں پارٹیAکوتفصیلات سے آگاہ کرے گی ۔
24· پارٹیBمدمقابل کی پروڈکٹس نہیں بیچے گی ۔
25· پارٹیBکمپنی کے کسی بھی نمائندے سے کیش کامعاملہ بغیرکمپنی کے اطلاع کے نہیں کرے گی بصورت دیگرخودذمہ دارہوگی۔
26· پارٹیBہرسیل نمائندے کی تنخواہ میں 6000کاحصہ ڈالے گی۔
27پارٹیBکمپنی کے مجازاسٹاف کوکمپنی کے کہنے پرتنخواہ دے گی اورتمام تفصیلات مہیاکرے گی جس کی ایڈجسٹمنٹ پارٹیBکے حساب سے منہاکردی جائے گی۔
28· پارٹیBپارٹیAکے کسی بھی قسم کی تفصیلات بغیرپارٹیAکی رضامندی کے کسی کوبھی نہیں دے گی اورپارٹیAسے تحریری اجازت لے گی۔
· پارٹیAپارٹیBکے اسٹاک کاآڈٹ کرے گی اوراس لسٹ کوحتمی سمجھاجائے گا۔
· اکاؤٹنٹ کوبندکرنے کے لیے کم ازکم ایک ماہ کاعرصہ درکارہوگا۔
·Closing Documentsکم ازکم دوافرادکے سائن سے وصول کیے جائیں گے۔
· دونوں پارٹیوں کواختیارہوگاکہ خلاف ورزی کی صورت میں معاہدہ ختم کردیں گی۔
· دونوں پارٹیاں باہمی رضامندی کے ساتھ اختلاف ختم کریں گی بصورت دیگرثالث پارٹی سے رجوع کیاجائے گا۔
ہمارے پرانے نظام میں پارٹی اے کی ذمہ داریوں کے تحت شق نمبر5 اور 6 اس طرح تھی کہ ڈیلرکو ہماری مقرر کردہ قیمت پر مال فروخت کرنا لازم ہوتا تھا اور ہم اسے 7فیصد فکس کمیشن دیتے تھے،جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ جب ڈیلر ہم سے مال خریدتاتو جو قیمت ہم نے مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے طے کی ہوتی ڈیلر ہمیں وہ مکمل قیمت اد اکرتا تھا پھرمہینے کے آخر میں اس نے جتنا مال خریدا اس کا 7 فیصد کمیشن کمپنی اس کو ادا کردیتی تھی ،مثلا اگر پورے مہینے میں ڈیلر نے ہم سے 1لاکھ کا مال خریدا تو مہینے کے آخر میں اس کا 7فیصد کمیشن یعنی 7ہزار واپس کردیتے ،اب اگر ڈیلر کو مال فروخت کرنے کے بعدکمپنی قیمت میں کمی یا اضافہ کرتی تب بھی ڈیلرنے جس قیمت پر ہم سے مال خریدا تھا اس کے 7 فیصد کمیشن ہی کا مستحق ہوتا تھا،باقی نفع نقصان کمپنی کا ہی ہوتا؛مثلا، اگرڈیلر کے مال فروخت کرنے سے پہلے کمپنی نے ریٹ بڑھادیے تو نئے ریٹوں کا اطلاق ڈیلر کے پاس موجود مال پر بھی ہوتا اور ڈیلر کو پرانامال نئے ریٹ پر فروخت کرنا ہوتا،مال جس قیمت پر کمپنی سے خریدا تھا اس کے 7فیصد کمیشن کا وہ مستحق ہوتا،بقیہ رقم کمپنی کو واپس کرنی ہوتی،مثلا کمپنی نے ایک مہینے میں1 لاکھ روپے کا مال ڈیلر کو فروخت کیا تو ڈیلراسے 1لاکھ روپے ادا کردے گا،بعد میں کمپنی نے ریٹ بڑھا کر 1لاکھ 10 ہزار کردیے توڈیلر آگے 1لاکھ 10ہزار ہی کا مال فروخت کرے گا،اب 1لاکھ 10 ہزار کے مال میں ڈیلر کا کمیشن7ہزار بنتا ہےتو ڈیلر کمپنی کو 3ہزار روپے واپس کرے گا اس لیے کہ اسکے پاس 10ہزاراضافی آچکے ہیں جو کہ اسے کمپنی کو واپس کرنے ہیں،اور کمپنی نے اسے 7ہزار کمیشن ادا کرنا ہے ،لہذا وہ کمپنی کو 3ہزار روپے ادا کرے گا۔
اور اگر کمپنی نے ریٹ کم کردیے تو ڈیلر کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ قیمت پر ہی مال فروخت کرنے کاپابند ہوتااور کمپنی ڈیلر کو اس کی ادا کردہ رقم کا 7٪ فیصد ادا کرتی جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ مثلا کمپنی نے 1لاکھ کامال ڈیلر کو فروخت کیا اور 1 لاکھ روپے اس سے وصول کرلیے، بعد میں مال کی قیمت90ہزار کردی،اب ڈیلرنے مال 90 ہزار میں فروخت کیا توڈیلر کا کمیشن 1لاکھ پہ 7ہزار بنتا ہےاور چونکہ مال کی قیمت 90ہزار ہوچکی ہے ، جبکہ ڈیلر اس کے 1لاکھ دے چکا تھا تو کمپنی اس کو کل 17ہزار واپس کرتی؛7ہزار اس کا کمیشن اور 10ہزار اس کی اپنی رقم۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا یہ طریقہ کار جائز تھا؟اگر جائز نہیں تھاتو کیا قیمت بڑھانے کی صورت میں پارٹی اے نے پارٹی بی سے جو پیسے وصول کیےاور قیمت کم کرنے کی صورت میں پارٹی بی نے پارٹی اے سے جو رقم لی وہ رقم ایک دوسرے کو واپس کرنا لازم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کےذکر کردہ معاہدہ نامہ کا شرعی حکم شق وار ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
شق نمبر 1 تا 4درست ہیں۔
شق نمبر5 کی رو سے پارٹی اے سامان کی قیمت میں سے کمیشن کے نام سے رقم منہا کرکے پارٹی بی کو مال فروخت کرتی ہے توکمیشن کے نام سے منہا کی گئی رقم اصلاً پارٹی اے کی جانب سے مبیع(فروخت کیے جانے والے سامان) کی قیمت میں کمی شمار ہوگی اور کمیشن کی رقم کو منہا کرنے کے بعد حاصل ہونے والی صافی رقم ہی سامان کی اصل قیمت شمار ہوگی۔
شق نمبر6:چونکہ پارٹی اے پارٹی بی کو اپنا سامان فروخت کردیتی ہے،اس لیے سامان پارٹی اے کی ملکیت سے نکل کر پارٹی بی کی ملکیت میں چلا جاتا ہے اورکسی چیز کی بیع و شراء کا تقاضہ یہ ہے کہ ملکیت آجانے کے بعد خریدار اسے جس قیمت پر چاہے فروخت کرسکتا ہے،اس لیےپارٹی بی پر یہ شرط لگانا کہ وہ پارٹی اے کی مقرر کردہ قیمت پر سامان فروخت کرے گی،اصلا یہ شرط بیع کے تقاضوں کے خلاف ہے تاہم چوں کہ اس شرط پر عرف جاری ہوچکا ہے؛ اشیاء خورد و نوش کی بہت سی کمپنیاں اور ان کے علاوہ بھی دیگر کمپنیاں اپنا مال اس شرط پر فروخت کرتی ہیں کہ خریدار ان کی مقرر کردہ قیمتوں پر مال فروخت کرنے کے پابند ہوں گے،اس لیے پارٹی اے کے لیے پارٹی بی پر یہ شرط لگانا درست ہے اور پارٹی بی پر اس کی پابندی لازم ہوگی، اگر پارٹی بی نے سامان خریدنے کے بعد پارٹی اے کی مقرر کردہ قیمتوں سے زائد یا کم قیمت پر فروخت کیا تو اس کو وعدہ خلافی کا گناہ ہوگا۔
شق نمبر 7:یہ انسینٹیو پارٹی اے کی جانب سے ہبہ(گفٹ)شمار ہوگااور پارٹی اے کواپنے وعدہ کی پاسداری کرنا ہوگی۔
شق نمبر8: شق نمبر 6 کے تحت اس کاحکم گزر چکا۔
شق نمبر9:درست ہے،پارٹی اے پر سامان مقررہ جگہ پہنچانا لازم ہے۔
شق نمبر10:اگر یہ پالیسیاں جائز ہوں تو ان پر عمل جائز ہوگا،ورنہ نہیں۔
شق نمبر 4 کی رو سے پارٹی بی پریہ شرط لگائی گئی ہے کہ وہ کمپنی کے مقرر کردہ علاقہ سے باہر کمپنی سے خریدا ہوا مال فروخت نہیں کرسکتی،چوں کہ مال فروخت کرنے کے بعد وہ پارٹی اے کی ملکیت سے نکل کر پارٹی بی کی ملکیت میں چلا جاتا ہے اور مالک اپنی مملوکہ چیز میں آزادانہ تصرف کا اختیار رکھتا ہے اس لیے اگر پارٹی بی نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مال مقررہ علاقے سے باہر مالک نے فروخت کیا تو یہ بیع تو جائز ہوگی اور آنے والی آمدنی حلال کہلائے گی ،تاہم چونکہ پارٹی بی پارٹی اے سے معاہدہ کرچکی تھی اس لیے اس کو وعدہ خلافی کا گناہ ہوگا۔
شق نمبر14:اگر آفر سے مراد کم قیمت پر مال فروخت کرنا ہے تو اس کا حکم "پارٹی اے کی ذمہ داریوں "میں شق نمبر 6 کے تحت گزر چکا ہے۔
شق نمبر 20:پارٹی بی معاہدہ کی رو سے کمپنی کی جائز پالیسیوں پر عمل کرنے کی پابند ہوگی۔
شق نمبر24:اس شق کا حکم بھی شق نمبر 4 کے حکم کے مطابق ہے یعنی پارٹی بی کو اپنے معاہدہ کے مطابق عمل کرنا چاہیےتاکہ فریقین میں باہم اعتماد کی فضاقائم رہے،اگر اس نے مدمقابل کی پروڈکٹس فروخت کیں تو اس کو وعدہ خلافی کا گناہ ہوگا۔
شق نمبر26:اگر یہ نمائندہ پارٹی اے کا ملازم ہے اور اس کے لیے کام کرتا ہے تو پارٹی اے کا اپنے ملازم کی تنخواہ میں سے مذکورہ رقم کی ادائیگی پارٹی بی پر لازم کرنا شرعا درست نہیں ہے،اور اگر یہ سیل نمائندہ دونوں پارٹیوں کا ملازم ہے اور دونوں کا مشترکہ کام کرتا ہے تو پارٹی بی کے کام کے بقدر ملازم کی تنخواہ پارٹی بی پر لازم کرنا درست ہوگا۔
شق نمبر 27:اگر یہ معاہدہ کی ایسی لازمی شرط ہو جس پر پارٹی بی کو مجبور کیا جاتا ہومذکورہ عملہ پارٹی اے کا ملازم ہو اور اس کے لیے کام کرتا ہو توپھریہ شرط لگانا جائز نہیں ہے،یہ شرط فاسد ہے اس لیے کہ پارٹی بی کی جانب سے پارٹی اے کے عملے کو تنخواہیں دینا اصل میں پارٹی اے کو قرض دینا شمار ہوگااور بیع کے ساتھ قر ض کو مشروط کرنا ناجائز ہے اور یہ شرط عقد کو فاسد کردیتی ہےلہذا اس شرط کی وجہ سے بیع و شراء کا معاملہ فاسد ہوجائے گا،اور اگر یہ معاہدہ کی لازمی شرط نہ ہویعنی سامان کی خرید و فروخت اس شرط پر موقوف نہ ہوبلکہ پارٹی بی اپنی جانب سے پارٹی اے کے عملے کی تنخواہیں دینے پر راضی ہو تو پھر یہ جائز ہوگا اور پارٹی اے کے تنخواہ دار عملہ کو پارٹی بی جو تنخواہیں ادا کرے گی وہ اس کی جانب سے پارٹی اے پر قرض شمار ہوگا،جس کی ادائیگی پارٹی اے پر لازم ہوگی۔
بہتر یہ ہے کہ پارٹی اے اپنے عملے کی تنخواہ کی ادائیگی کا از خود انتظام کرے ۔
"پارٹی بی کی ذمہ داریوں " کے عنوا ن کے تحت اور "Closing terms" کے تحت ذکر کردہ بقیہ شقیں شرعا درست ہیں،فریقین پر شرعا و اخلاقا ان شقوں کی پاسداری لازم ہوگی۔
صورت مسئولہ میں سائل کا ذکر کردہ سابقہ طریقہ کار شرعا جائز نہیں تھا؛چونکہ سائل اپنا مال ڈیلر کو فروخت کردیتا تھا اس لیے ڈسٹری بیوٹراس کا مالک بن جاتا تھا،مالک بننے کے بعد اس مال کا نفع و نقصان ڈسٹری بیوٹر ہی کا تھا،اس لیے اس شرط کے ساتھ مال کی خریدو فروخت کرنا شرعا درست نہیں تھااور اس شرط کو منسوخ کرنا فریقین پر لازم تھا،اب مذکورہ معاہدہ کی رو سے ریٹ بڑھنے کی صورت میں جو اضافی رقم ڈسٹری بیوٹر نے کمپنی کو ادا کی ہے شرعا وہ ڈسٹری بیوٹر کی ملکیت تھی جس کا لوٹانا کمپنی پر لازم ہے،اور ریٹ کم کرنے کی صورت میں کمپنی نے جو اضافی رقم ڈسٹری بیوٹر کو ادا کی شرعا وہ ڈسٹری بیوٹر کے لیے وصول کرنا جائز نہیں تھا،اس لیے اس رقم کا لوٹانا ڈسٹری بیوٹر پر لازم ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ}
(النساء:29)
{يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوۡفُواْ بِٱلۡعُقُودِۚ الخ}
(المائدہ:1)
مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:
"البيع بشرط متعارف يعني المرعي في عرف البلد صحيح والشرط معتبر...
البيع بشرط ليس فيه نفع لأحد العاقدين يصح والشرط لغو مثلا بيع الحيوان على ألا يبيعه المشتري لآخر أو على شرط أن يرسله إلى المرعى صحيح والشرط لغو."
(الکتاب الاول فی البیوع،الباب الاول،الفصل الرابع فی حق البیع بشرط،ص:39،ط:نور محمد کارخانہ تجارت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل باع شيئا وقال بعت منك بكذا على أن أحط من ثمنه كذا جاز البيع."
(کتاب البیوع،الباب العاشر،ج:3،ص:136،ط:رشیدیہ)
الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"(و) لا (بيع بشرط)...لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو)...ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه) أما لو جرى العرف به كبيع نعل مع شرط تشريكه، أو ورد الشرع به كخيار شرط فلا فساد
(قوله وفيه نفع للمشتري) ومنه ما لو شرط على البائع طحن الحنطة أو قطع الثمرة وكذا ما اشتراه على أن يدفعه البائع إليه قبل دفع الثمن، أو على أن يدفع الثمن في بلد آخر، أو على أن يهب البائع منه كذا، بخلاف على أن يحط من ثمنه كذا؛ لأن الحط ملحق بما قبل العقد ويكون البيع بما وراء المحطوط بحر."
(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج:5،ص:85،ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"في جامع الفصولين أيضا: لو شرطا شرطا فاسدا قبل العقد ثم عقدا لم يبطل العقد. اهـ قلت: وينبغي الفساد لو اتفقا على بناء العقد كما صرحوا به في بيع الهزل كما سيأتي آخر البيوع. وقد سئل الخير الرملي عن رجلين تواضعا على بيع الوفاء قبل عقده وعقد البيع خاليا عن الشرط. فأجاب بأنه صرح في الخلاصة والفيض والتتارخانية وغيرها بأنه يكون على ما تواضعا."
(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،،مطلب فی البیع الفاسد اذاذکر بعد العقد اور قبلہ،ج:5،ص:84،ط:سعید)
مرشد الحیران الی معرفہ احوال الانسان لقدری باشا میں ہے:
"إذا اشترط في العقد على البائع تسليم المبيع في محل معين لزمه تسليمه في المحل المذكور."
(کتاب البیع،باب فی تسلیم المبیع،الفصل الاول فی کیفیۃ التسلیم و مکانہ ووقتہ،ص:57،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ ببولاق-مصر)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"إذا بيع مال على أن يسلم في محل كذا لزم تسليمه في المحل المذكور (انظر المادة 188) .
مثال ذلك أن يبيع شخص حنطة من مزرعة له على أن يسلمها إلى المشتري في داره فيجب عليه تسليمها إلى المشتري في داره وكذلك إذا شرط تسليم المبيع الذي يحتاج إلى مئونة في نقله إلى محل معين فيجب تسليمه هناك الخ."
(الکتاب الاول:البیوع،الباب الخامس،الفصل الثالث فی حق مکان التسلیم فی البیع،ج:1،ص:270،ط:دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303101027
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن