بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 محرم 1447ھ 02 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

دے دیا کہ لفظ سے نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟


سوال

گاؤں میں نکاح کا ایک طریقہ کار یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک وکیل اور دو گواہ لڑکی کے پاس جاتے ہیں، گواہ کھڑے ہو کر  سنتے ہیں اور وکیل لڑکی سے پوچھتا ہے کہ آپ اپنے نکاح کا اختیار اور مہر کی کمی زیادتی کا اختیار کس کو دیتی ہو؟ لڑکی گواہوں کی موجودگی میں کہتی ہے کہ میرے نکاح کا اختیار اور مہر کی کمی یا زیادتی کا اختیار میرے ماموں یا چچایا بھائی کا ہے، اس کے بعد وہ وکیل وہاں سے چلاجاتا  ہے، پھر مذکورہ دونوں گواہ نکاح خواں کے پاس آتے ہیں ، نکاح  خواں باوجود ان  دونوں کو جاننے کہ پھر بھی ان سے پوچھتا ہے کہ تم کون ہو؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم گواہی دینے والے ہیں، ان دونوں میں سے ایک کہتا ہے کہ میں اللہ  اور رسول کے لیے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ فلاں بنت فلاں لڑکی کے نکاح یا مہر کی کمی زیادتی کا اختیار اس لڑکی کے بھائی ماموں، یا چچا کا ہے اور دوسرا بھی اسی طرح کہتا ہے، اس کے بعد نکاح خواں اس سے پوچھتا ہے : جس کو لڑکی نے اختیار  دیا ہوتا ہے کہ آپ نے فلاں بنت فلاں کو دیا تھا اور دے دیا؟ (نکاح کا لفظ استعمال نہیں کرتا) وہ جواب میں کہتا ہے کہ: میں نے فلاں بنتِ فلاں کو اتنے مہر کے ساتھ فلاں بن فلاں کو دیا تھا اور دے دیا۔

پھر نکاح خواں لڑکے والوں سے پوچھتا ہے کہ آپ نے فلاں بنتِ فلاں کو اتنے مہر کے ساتھ فلاں بن فلاں کے لیے قبول کیا تھا اور قبول کیا؟ وہ کہتے ہیں کہ جی ہاں! ہم نے فلاں بنتِ فلاں کو اتنے مہر کے ساتھ فلاں بن فلاں کے لیے قبول کیا تھا اور قبول کیا، اس کے بعد خطبہ نکاح اور دعاء ہوتی ہے۔

وضاحت فرمائیں کہ اس طرح کا نکاح درست ہے یا نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ نکاح کا انعقاد ایسے الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے جو الفاظ صراحتاً یا کنایۃً نکاح کے معنی پر  یا ملکیت پر دلالت کرتے ہوں، نکاح کے صریح الفاظ وہی ہیں، جن میں نکاح کی صراحت ہو، مثلاً نکاح میں دےدیا اور نکاح میں قبول کیا وغیرہ، ایسے الفاظ سے ایجاب و قبول خواہ کسی بھی مجلس میں ہو شرعاً نکاح ہوتا ہے اور اگر  کنائی الفاظ سے ایجاب و قبول کرے مثلاً یوں کہے کہ: میں نے اپنی بیٹی فلاں کو دے دی اور لڑکے یا اس کے وکیل یا سربراہ کہیں کہ ہم نے فلاں کے لیے یہ لڑکی لے لی، پھر ایسی صورت میں اگر مجلس نکاح کی ہو کہ لوگوں کو نکاح کے عنوان سے بلایا ہو،تو پھر نکاح قرار پائے گا اور اگر مجلس منگنی کی ہو، تو پھر منگنی شمار ہوگی۔

چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وما ‌ينعقد ‌به ‌النكاح فهو نوعان) صريح وكناية فالصريح لفظ النكاح والتزويج، وما عداهما وهو ما يفيد ملك العين في الحال كناية، كذا في النهر الفائق ناقلا عن المبسوط فينعقد بلفظ الهبة هكذا في الهداية."

(كتاب النكاح، ج:1، ص:270، ط:دار الفكر)

لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ منعقدہ مجلس نکاح کی مجلس تھی کہ لوگوں کو نکاح کے لیے جمع کیا تھا، نکاح کے وکیل گواہان سمیت موجود  تھے اور مہر کا تذکرہ بھی تھا، جیسا کہ ظاہر سوال سے معلوم ہورہا ہے، تو "لفظِ "دے دیا" کے ساتھ بھی نکاح منعقد ہوجائے گا اور سوال میں مذکورہ طریقہ پر نکاح بلا شبہ منعقد ہوجائے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں