حضرت یہ جو آج کل تبلیغی جماعت کی ترتیب ہے جس میں گشت ، سہ روزہ وغیرہ کی جو ترتیب ہے کیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یعنی جس ترتیب سے آج کل عصر کی نماز کے بعد گشت ہوتا ہے اور اس میں گشت کے مختلف آداب اور مختلف فضائل بیان کیے جاتے ہیں تو کیا یہ احادیث سے ثابت ہیں یا خود سے بنائے ہوئے ہیں اور اگر ثابت نہیں ہے تو پھر کیا یہ عمل بھی بدعت ہوگا ، لیکن میں یہ بات جانتا ہوں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اللہ کا حکم ہے لیکن اس کام کی جو ترتیب ہے کیا وہ درست ہے اور کہاں سے ثابت ہے ۔ نیز یہ بھی بتادیں یہ جو سالانہ رائیونڈ کا اجتماع ہوتا ہے اور آخر میں دعا بھی ہوتی ہے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تو اس کا حکم نہیں دیا تو پھر اس ترتیب کو صحیح کیوں کہتے ہیں (یعنی یہ کام بھی تو بدعت ہوا نا )۔ براہ کرم جواب دیں کر میری تسلی فرمائیں !
واضح رہے کہ بقدرِ ضرورت دین سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، چاہے وہ تبلیغ کے شعبہ کے ذریعہ ہو یا مدرسہ و خانقاہ یا دین کے دوسرے شعبہ کے ذریعہ ہو، اگر کسی شخص کو دین سیکھنے کا موقع صرف شعبہ تبلیغ کے ذریعہ حاصل ہو، اور کوئی ذریعہ اس کے لیے حصول علم کا نہ ہو، جیسا کہ اس وقت امت کے بہت بڑے طبقہ کا ایسا ہی حال ہے تو ان کے لیے شعبہ تبلیغ کے ذریعہ دین سیکھنا نہ صرف مفید ہے بلکہ ضروری امر ہے،اور اس ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے زمانہ کے حالات اور تقاضوں کو مد نظر رکھ کر دعوت الی الخیر کی مروجہ جو ترتیب بزرگوں کی طرف سے بنائی گئی ہے وہ بھی اسی عمومی حکم میں داخل ہے، اس کے لیے باقاعدہ انہیں تفصیلات کے ساتھ خیر القرون سے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ نفسِ تعلیمِ دین ضروری ہے، لیکن آج کل جس انداز میں مدارس قائم کرکے نصاب کی تعیین کی گئی ہے اور آٹھ سالہ درسِ نظامی کا کورس مقرر کیا گیا ہے، وہ بھی ان قیودات کے ساتھ خیر القرون سے ثابت نہیں، لیکن تجربہ سے مفید ثابت ہوا ہے اور اس کے ذریعہ سے سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں نے علمِ دین میں مہارت حاصل کی ہے، بعینہٖ یہی حال جماعت دعوت وتبلیغ کے مقرر کردہ مروجہ نظام کا بھی ہے کہ امت میں دینی بیداری، دین کے لیے ایثار و قربانی اور بے طلب لوگوں کے اندر دین کی طلب و فکرِ آخرت پیدا کرنے کی غرض سے متعین ایام کے لیے نقل وحرکت (یعنی شبِ جمعہ، سہ روزہ، چلّہ، چار ماہ، ایک سال) کا مروجہ نظام بنایا گیا ہے جو یقیناً مذکورہ تفصیلات کے ساتھ اصطلاحاً فرض یا واجب نہیں ہے، لیکن تجربہ سے اس کا فائدہ مند ہونا واضح امر ہے، جس سے کوئی منصف مزاج شخص انکار نہیں کرسکتا۔
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ تبلیغی جماعت کے طریقہ کار سے متعلق لکھتے ہیں:
"دین کی دعوت و تبلیغ تو اعلیٰ درجے کی عبادت ہے، اور قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی میں جابجا اس کی تاکید موجود ہے، دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے جماعتِ تبلیغ وقت فارغ کرنے کا جو مطالبہ کرتی ہے، وہ بھی کوئی نئی ایجاد نہیں، بلکہ ہمیشہ سے مسلمان اس کے لیے وقت فارغ کرتے رہے ہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تبلیغی وفود بھیجنا ثابت ہے۔ رہی سہ روزہ، ایک چلہ، تین چلہ اورسات چلہ کی تخصیص، تو یہ خود مقصود نہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مسلمان دین کے لیے وقت فارغ کرنے کے تدریجاً عادی ہوجائیں اوران کورفتہ رفتہ دین سے تعلق اور لگاؤ پیداہوجائے، پس جس طرح دینی مدارس میں نوسالہ، سات سالہ کورس (نصاب) تجویز کیا جاتا ہے، اور آج تک کسی کو اس کے بدعت ہونے کا وسوسہ بھی نہیں، اسی طرح تبلیغی اوقات کو بھی بدعت کہناصحیح نہیں۔"
( آپ کے مسائل اور انکا حل، ج:9، ص:145، ط:مکتبہ لدھیانوی)
باقی بدعت اسے کہتے ہیں کہ جس عمل کی اصل رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین و اَصحابِ قرونِ اولیٰ سے ثابت نہ ہو، باوجود یہ کہ اس نوعیت کی ضروررت اس زمانے میں پیش آئی ہو، بعد کے زمانے میں اسے دین کا حصہ سمجھا جائے، اور اس کا التزام کیا جائے، نہ کرنے والے پر نکیر کی جائے، لہٰذا اگر کسی اجتماع یا تقریب کے آخر میں اجتماعی دعا کو لازم و ضروری سمجھا جائے اور ترک کرنے والوں پر نکیر کی جائے تو یہ غلط ہوگا، لیکن مسلمانوں کی مجلس یا تقریب کے آخر میں دعا کی اصل روایات سے ثابت ہے، ہر مجلس کے آخر میں پڑھنے کے لیے مسنون دعا معروف ہے، اسی طرح مختلف مواقع پر اجتماعی دعا ثابت ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101881
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن