میں نے ایک واقعہ سنا ہے کہ ایک دفعہ ایک بندہ کعبہ کے گرد طواف کر رہا تھا تو وہ کچھ پڑھ رہا تھا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے الفاظ اتنے پیارے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھنے لگے ، اس آدمی نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو تمہاری شکایت کروں گا کہ تم میرا مذاق اڑا رہے ہو ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے اپنے نبی کو دیکھا ہے؟ تو کہنے لگا کہ دیکھا تو نہیں، لیکن مل کر بتاؤں گا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں ہی نبی ہوں تو وہ معافیاں مانگنے لگا اور کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ مجھے جنت ملے تو اللہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہو کہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ پہلے اس کا حساب ہوگا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ پھر میں بھی اللہ سے حساب لوں گا ، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حیران ہو کر دیکھنے لگے اور اللہ تعالیٰ پوچھ رہے ہیں کہ کیسا حساب ؟تو وہ آدمی کہنے لگا کہ اتنی بڑی دنیا اور اتنی نعمتیں تو مجھ کیا کچھ دیا اتنی چیزوں کو تو میں جانتا بھی نہیں تو اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے کہیں کہ تم مجھ سے حساب کرنا اور نہ میں تم سے کروں گا ۔
کیا یہ واقعہ سچاہے ؟
مذکورہ قصہ عوام میں مشہور ہے، لیکن کافی تلاش کے باوجود کتب احادیث وسیرت وغیرہ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں مل سکا، لہذا جب تک کسی معتبر سند کے ساتھ یہ واقعہ نہ مل جائے، اسے نبی کریم ﷺ سے منسوب کرکے بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
البتہ اس سے ملتاجلتا ایک واقعہ شیخ ابو طالب المکی محمد بن علی بن عطیۃؒ (ت: 386ھ) نے اپنی کتاب "قوت القلوب في معاملة المحبوب" میں، اور امام غزالیؒ نے احیاءعلوم الدین میں نقل کیا ہےکہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ مخلوق کا حساب کون لےگا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ رب العزت خود لیں گے، یہ سن کر دیہاتی ہنس پڑا، حضور ﷺ نے اس سے ہنسنے کی وجہ پوچھی، تو دیہاتی نے کہا کہ کریم ذات جب قدرت پالیتی ہیں تو وہ معاف کردیتے ہیں (تو ہمیں بھی مغفرت مل جائے گی) اور جب حساب لیتا ہے تو درگزر کرتا ہے، اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: یہ اعرابی سچ کہتا ہے، خبردار اللہ تعالی سے زیادہ کوئی کریم نہیں ہے، وہ سب سے بڑا کریم ہے۔
"وفي الحديث الطويل لأنس: أن الأعرابيّ قال: يا رسولَ الله من يَلِيْ حسابَ الخلق؟ فقال: الله تبارك وتعالى، قال: هو بنفسه؟ قال: نعم، فتبسَّم الأعرابيّ، فقال صلى الله عليه وسلم: ممَّ ضحكتَ يا أعرابيّ؟ فقال: إنّ الكريم إذا قدر عفا، وإذا حاسب سامح، فقال النّبيّ صلى الله عليه وسلم: صدق الأعرابيّ، ألا ولا كريمَ أكرمُ من الله تعالى، هو أكرمُ الأكرمين، ثم قال: فقُه الأعرابيّ."
. قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيدلأبي طالب المكي، الفصل الثاني والثلاثون، 2/590، ط: مكتبة دار التراث - القاهرة
. إحياء علوم الدين للإمام الغزالي، ربع المنجيات، كتاب الخوف والرجاء، 491/7، ط: دار المنهاج - جدّة
لیکن اس واقعہ کو بھی علماء نے بے اصل قرار دیا ہے، چناں چہ علامہ زین الدین عراقی اور تاج الدین سبکی نے اس کو بے سند قرار دیا ہیں۔
"قال العراقي: لم أجد له أصلا، وقال ابن السبكي: لم أجد له إسنادا ."
(تخريج أحاديث إحياء علوم الدين، كتاب الرجاء والخوف، الرقم: 3466، 5/ 2195، ط: دار العاصمة، الرياض۔ تخريج إحياء علوم الدين، المسمى: المغني عن حمل۔الأسفار في الأسفار في تخريج ما في الإحياء من الأخبارللحافظ العراقي، كتاب الرجاء والخوف، الرقم 3819، 2 / 1055/ ط: مكتبة دار طبرية، الرياض۔ طبقات الشافعية الكبرى للسبكي، 6/287، ط: دار هجر)
شیخ ابوطالب المکی اور امام غزالی نے جو واقعہ نقل کیا ہے، اس کا کچھ حصہ ایک مرفوع روایت میں یوں منقول ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ، قیامت کے دن مخلوق کا حساب کون کرے گا؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اللہ ، اس پر وہ دیہاتی کہنے لگا: رب کعبہ کی قسم، ہم کامیاب ہوگئے، نبی کریم ﷺ نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو دیہاتی نے جواب دیا: کیونکہ جب کوئی کریم قدرت حاصل کر لیتا ہےتو وہ عفو و در گزر سے کام لیتا ہے۔
"أخبرنا أبو الحُسين عبد الباقي بن قانع القاضي، ثنا محمد بن زكريا، ثنا ابن عائشة، ثنا أبي، عن عمّه، عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن، عن سعيد بن المسيّب، عن أبي هريرة، قال: قال أعرابيّ: يا رسول الله من يُحاسِبُ الخلقَ يوم القيامة؟ قال: الله عز وجل، قال: نَجَوْنا وربِّ الكعبة، قال: كيف ذلك يا أعرابي؟ قال: لأنّ الكريم إذا قدر عفا."
(الأمالي لابن بشران، المجلس الثامن والثلاثون والستمائة، الرقم: 7، الجزء الأول، ص: 27، ت: أبو عبد الرحمن العزازي، ط: دار الوطن، الرياض۔شعب الإيمانللبيهقي، باب في حشر الناس... الرقم: 262، 247/1، ت: أبو هاجر زغلول، ط: دار الكتب العلمية - بيروت- لبنان)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605100385
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن