بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوران نماز تین یااس سے زیادمرتبہ موبائل کی گھنٹی بند کرنا


سوال

اگر کو ئی نمازی دوران نماز تین یا اس سے زا ئد مرتبہ موبا ئل کی گھنٹی بند کرے تو پھر نماز کا حکم کیا  ہو گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر نمازی نے موبائل کی گھنٹی  ہر بار ایک ہاتھ سے بندکی تھی ،اور ایک  رکن میں تین مرتبہ لگاتار بند کرنا نہیں پایا گیا تھا،تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی  ہے،البتہ نماز میں کراہت آجاتی ہے   ، اور اگر نمازی  نے موبائل کی گھنٹی ایک ہی رکن میں بار بار بند کی تھی  اور ہر مرتبہ میں جیب سے نکال کر بند کی تھی ،تو اس سے نماز فاسد         ہوجاتی ہے ،کیوں کہ یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

 واضح رہے کہ موبائل میں موسیقی سے پاک سادہ    گھنٹی  لگانی چاہیے دوران نماز      گھنٹی بج جا ئےتو نماز میں خلل بھی کم ہو اور موسیقی کی گناہ سے بچنے کے ساتھ ساتھ مسجدکے تقدس  کی خلاف ورزی بھی لازم نہ آئے   ، تاہم نماز سے پہلے ہی موبائل کی گھنٹی اہتمام سے بندکر دینی چاہیے ،تاکہ نماز میں خلل نہ ہو ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها العمل الكثير الذي ليس من أعمال الصلاة في الصلاة من غير ضرورة فأما القليل فغير مفسد، واختلف في الحد الفاصل بين القليل والكثير قال بعضهم: الكثير ما يحتاج فيه إلى استعمال اليدين والقليل ما لا يحتاج فيه إلى ذلك حتى قالوا: إذا زر قميصه في الصلاة فسدت صلاته، وإذا حل إزاره لا تفسد، وقال بعضهم: كل عمل لو نظر الناظر إليه من بعيد لا يشك أنه في غير الصلاة فهو كثير، وكل عمل لو نظر إليه ناظر ربما يشبه عليه أنه في الصلاة فهو قليل وهو الأصح۔"

(کتاب الصلاۃ ،فصل فی بیان حکم الاستخلاف،241/1،ط،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا ‌حك ‌ثلاثا في ركن واحد تفسد صلاته هذا إذا رفع يده في كل مرة أما إذا لم يرفع في كل مرة فلا تفسد ولو كان الحك مرة واحدة يكره. كذا في الخلاصة۔"

(کتاب الصلوۃ، الباب السابع، الفصل الأول فیما یفسد ھا، 104/1،ط:دار الفکر )

فتاوی شامی میں ہے :

"و  يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لا يشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها)

القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل.

الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل .

الرابع ما يكون مقصودا للفاعل بأن يفرد له مجلسا على حدة. قال في التتارخانية: وهذا القائل: يستدل بامرأة صلت فلمسها زوجها أو قبلها بشهوة أو مص صبي ثديها وخرج اللبن: تفسد صلاتها.

الخامس التفويض إلى رأي المصلي، فإن استكثره فكثير وإلا فقليل قال القهستاني: وهو شامل للكل وأقرب إلى قول أبي حنيفة، فإنه لم يقدر في مثله بل يفوض إلى رأي المبتلى۔"

(کتاب الصلوۃ ،باب ما یفسد الصلوۃ ،624/1،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں