بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دعوت کے موقعے پر اجتماعی ذکر کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے میں اگر علماء کرام کو کسی کے گھر میں کھانے کی دعوت کی جاتی ہے ،یا کسی بھی قسم کا دعائیہ پروگرام ہوتا ہے تو دعا سے پہلے ایک یا دوشخص قرآن کریم کی کچھ آیتیں یا سورتیں تلاوت کرتےہیں ،پھر دوسرا شخص چار وں قل پڑھتاہے،اور ہر قل کے ختم پرسب مل کربلند آواز سے ایک مرتبہ یہ دعا پڑھتے ہیں: "لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌وَاللَّهُ ‌أَكْبَرُ "۔ اور پھر وہی شخص "مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ...الخ" اور" إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ...الخ"دونوں آیات کی تلاوت کرتا ہے،اور درود وسلام کے بعد سب مل کر دعا کرتے ہیں۔

کیا کسی کے گھر دعوت کھانے کے لئے جاکر اس طریقہ سے دعا کرنا درست ہے ؟ کیا دعوت کے بغیر کسی بھی قسم کی اجتماعی دُعا کے لئے اس صورت کو اپنانا درست ہے ؟ کیا چاروں قل پڑھتے وقت درمیان میں"لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌وَاللَّهُ ‌أَكْبَرُ"پڑھنے کی کوئی خاص فضیلت ثابت ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ کھانے کی دعوت وغیرہ کی تقریب یا کسی دعائیہ تقریب میں اجتماعی ذكر كے بعد  دعا کا مروجہ طریقہ کا اہتمام والتزام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا سلف صالحین سے منقول نہیں ہے، اس کو دین سمجھ کے کرنا بدعت ہے ، لہذا اس سے  اجتناب کرنا ضروری ہے،باقی کھانا کھانے کے بعد صاحبِ دعوت کی خواہش پر از خود بلا التزام صاحبِ دعوت اور اس کے اہل خانہ کے لیے برکت اور رزق میں فراخی کے لیے اگر اجتماعی و انفرادی دعا کی جائے اور اس دعا کو لازم نہ سمجھا جائے تو یہ جائز ہے،نیز حضور ﷺ سے کھانے کے بعد اہلِ خانہ کے لیے دعا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أنس - أو غيره - «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - استأذن على سعد بن عبادة۔۔۔۔ثم دخلوا البيت، فقرب له زبيبا، فأكل نبي الله - صلى الله عليه وسلم - فلما فرغ قال: " ‌أكل ‌طعامكم ‌الأبرار، وصلت عليكم الملائكة، وأفطر عندكم الصائمون» ". رواه في " شرح السنة ."

(باب الضيافة، ج: 7، ص: 2736، ط: دار الفكر بيروت۔ لبنان)

وفیہ ایضاً:

"قال عبد الله بن بسر: نزل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على أبي، فقربنا إليه طعاما ووطية، فأكل منها، ثم أتي بتمر، فكان يأكله، ويلقي النوى بين أصبعيه ويجمع السبابة والوسطى، وفي رواية: فجعل يلقي النوى على ظهر أصبعيه السبابة والوسطى، ثم أتي بشراب، فشربه، فقال أبي - وأخذ بلجام دابته -: ادع الله لنا، فقال: "اللهم بارك لهم فيما رزقتهم، واغفر لهم، وارحمهم"فجعل يلقي"؛ أي: ‌فطفق ‌يسقط نوى التمر بظهر إصبعيه؛ أي: يضعها من فيه على ظهر إصبعيه السبابة والوسطى ثم يلقيها."

(كتاب الدعوات،باب الدعوات في الأوقات،٢٢٤/٢،ط:دار النوادر)

صحیح مسلم میں ہے:

"اَللّٰھُمَّ اَطْعِمْ مَّنْ اَطْعَمَنِيْ وَاسْقِ مَنْ سَقَانِيْ."

ترجمہ:اے اللہ! جس نے مجھے کھلایا تو اسے کھلا، اور جس نے مجھے پلایا تو اسے پلا۔"

 ‌‌(باب إكرام الضيف وفضل إيثاره، ج: 6، ص: 128، ط: دار الطباعة العامرة بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص ‌بوقت ‌دون ‌وقت أو بشيء دون شيء لم يكن مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع." 

(كتاب الصلاة، باب العيدين، 2/ 172، ط:دار الكتاب الإسلامي بيروت)

مسند دارمی میں :

"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کا حاصل یہ ہے کہ ان کا گزر مسجد میں ذاکرین کی ایک جماعت پر ہوا، جس میں ایک شخص یہ کہتا تھا کہ سو مرتبہ تکبیر کہو تو حلقہ میں بیٹھے لوگ کنکریوں پر سو مرتبہ تکبیر کہتے، وہ کہتا سو بار تہلیل (لاالہ الا اللہ) کہو تو وہ سو بار تہلیل کہتے، وہ کہتا کہ سو بار تسبیح پڑھو تو وہ سو بار تسبیح پڑھتے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم ان کنکریوں پر کیا پڑھ رہےہو؟ وہ کہنے لگے کہ ہم تکبیرو تہلیل اور تسبیح پڑھ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: 

"فعدوا سيئاتكم، فأنا ضامن أن لا يضيع من حسناتكم شيء ويحكم يا أمة محمد، ما أسرع ‌هلكتكم هؤلاء صحابة نبيكم صلى الله عليه وسلم متوافرون، وهذه ثيابه لم تبل، وآنيته لم تكسر... أو مفتتحو باب ضلالة."

(باب فی کراھیة أخذ الرأي، ج:1، ص:286، رقم الحديث، 210ط:دار المغني للنشر و التوضيع، السعودية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502102167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں