بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امام صاحب کا مقتدیوں کی دعوت قبول کرنے سے معذرت کرنا


سوال

1-  ہمارے امام صاحب عوام کے گھروں پر جاکر  کھانا کھانے کو پسند نہیں فرماتے ،  کیا عوام، امام صاحب کو اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے  کہہ سکتے  ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دعوت دی جاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جاکر کھانا کھاتے تھے تو آپ کیوں نہیں  جاتے؟ 

2-  اماموں  کا گھروں  پر  جاکر کھانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دعوت قبول کرنے کا  حکم احوال کے اعتبار سے مختلف ہے، عام حالات میں کسی مسلمان کی دعوت قبول کرنا، مسلمان کا حق ہونے کی وجہ سے مستحسن ہے ،بعض دعوتوں مثلًا ولیمہ وغیرہ کو قبول کرنا سنت ہے اور اس کی تاکید  بھی ہے، اور بعض دعوتوں میں شرکت ناجائز ہے،  لیکن  دعوت قبول کرنا فرض یا واجب نہیں ہے، اور مختلف اعذار کی بنا پر دعوت قبول کرنے سے معذرت کرنا بھی جائز ہے۔

1۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں امام صاحب  کا  لوگوں کے گھر جاکر کھانا نہ کھانے کو خلافِ سنت نہیں کہا جاسکتا، اور  اس بات  کی وجہ سے ان پر  طعن وتشنیع کرنا بھی جائز  نہیں ہے۔

2۔ امام کے لیے کسی کے گھر جاکرکھانا کھانے کی گنجائش ہے، بشرط یہ کہ اس دعوت میں شرکت سے  کوئی ممانعت موجود نہ ہو یا وہاں شرکت کرنے کی وجہ سےکسی مفسدہ کا خوف  نہ ہو۔

شرح النووي على مسلم (9 / 234):

" وأما الأعذار التي يسقط بها وجوب إجابة الدعوة أو ندبها فمنها أن يكون في الطعام شبهة أو يخص بها الأغنياء أو يكون هناك من يتأذى بحضوره معه أو لا تليق به مجالسته أو يدعوه لخوف شره أو لطمع في جاهه أو ليعاونه على باطل وأن لا يكون هناك منكر من خمر أو لهو أو فرش حرير أو صور حيوان غير مفروشة أو آنية ذهب أو فضة فكل هذه أعذار في ترك الإجابة ومن الأعذار أن يعتذر إلى الداعي فيتركه ولو دعاه ذمي لم تجب إجابته على الأصح "

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں