بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعوت و تبلیغ اوراس کے اعمال کا حکم


سوال

تبلیغی جماعت کےاصول میں ہے:  گھر میں تعلیم کرنا جس میں قرآن کا حلقہ لگانا منتخب احادیث پڑھنا اور  چھ صفات کا مذاکرہ کرنا تشکیل کرنا اور اگلے دن کا مشورہ کرنا یہ اعمال شامل ہوتے ہیں,  ایک مولانا صاحب کا دعویٰ ہے تمام گھروں میں یہ چنیدہ اعمال کرنا ہر ایک کے لیے فرض ہے ۔ اور یہ بتاتے  ہیں کہ دعوت فرض ہےاور اس کے تمام جزء فرض  ہیں؛ لہذا  گھرکا مشورہ اور  چھ  صفات وغیرہ سب فرض ہے یا نہیں،  اس کا کیا حکم ہے  ؟

جواب

واضح رہے کہ تبلیغ دین کا کام فرض کفایہ ہے، یعنی امت چنیدہ افراد اگر اس فریضہ کی ادائیگی میں مشغول ہوں، تو بقیہ تمام افراد سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا، البتہ اگر امت محمدیہ ساری کی ساری تبلیغ دین کا کام ترک کردے، تو ساری امت گناہ گار ہوگی، تاہم مروجہ تبلیغ  جماعت  سے منسلک ہونا نہ فرض ہے، اور  نہ ہی واجب ہے، البتہ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق تبلیغ کا کام مفید ہے،  بہرصورت مروجہ تبلیغی جماعت سے منسلک نہ ہونے سے انسان گناہگار نہ ہوگااور مروجہ تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کی تربیت کے لیے بزرگوں نے جو نصاب مقرر کیا ہے، وہ ان افراد کے لیے  مفید  تر ہے،  تاہم یہ معمولات توقیفی و لازمی نہیں ہیں کہ اس کی خلاف ورزی کرنے پر آدمی گناہگارقرار پائے،یعنی مذکورہ جماعت سے وابستہ افراد کے لیے  مذکورہ ترتیب پر چلنا اصلاح نفس کے لیے مفید ہوگا،  اور نہ چلنے کی صورت میں معتد بہ استفادہ نہ ہوسکے گالہذا صورت مسئولہ میں مولانا صاحب کا مذکورہ دعوی غلط ہے دعوت فرض کفایہ ہے باقی جو ترتیب بزرگوں نے رکھی وہ نہ فرض ہے نہ واجب  بلکہ تجربہ سے مذکورہ طریقہ پر کام فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿آل‌عمران: ١٠٤﴾

ترجمہ:"اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے۔ یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔"

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال الله تعالى: {ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر} قال أبو بكر: قد حوت هذه الآية معنيين. أحدهما: وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر. والآخر: أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره. لقوله تعالى: {ولتكن منكم أمة} وحقيقته تقتضي البعض دون البعض, فدل على أنه فرض الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين. ومن الناس من يقول هو فرض على كل أحد في نفسه ويجعل مخرج الكلام مخرج الخصوص في قوله:{ولتكن منكم أمة} مجازا, كقوله تعالى: {يغفر لكم من ذنوبكم} [الأحقاف: ٣١] ومعناه: "ذنوبكم". والذي يدل على صحة هذا القول أنه إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين, كالجهاد وغسل الموتى وتكفينهم والصلاة عليهم ودفنهم, ولولا أنه فرض على الكفاية لما سقط عن الآخرين بقيام بعضهم به."

(آل عمران : 104 جلد 2 ص: 37 , 38 ط: دارالکتب العلمیة)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"وأما قوله صلى الله عليه وسلم فليغيره فهو أمر إيجاب بإجماع الأمة وقد تطابق على وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر الكتاب والسنة وإجماع الأمة وهو أيضا من النصيحة التي هي الدين....فقد أجمع المسلمون عليه.....ووجوبه بالشرع لا بالعقل....والله أعلم ثم إن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض كفاية إذا قام به بعض الناس سقط الحرج عن الباقين وإذا تركه الجميع أثم كل من تمكن منه بلا عذر ولا خوف ثم إنه قد يتعين كما إذا كان في موضع لا يعلم به الا هو أولا يتمكن من إزالته إلا هو وكمن يرى زوجته أو ولده أو غلامه على منكر أو تقصير في المعروف قال العلماء رضي الله عنهم ولا يسقط عن المكلف الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لكونه لا يفيد في ظنه بل يجب عليه فعله فإن الذكرى تنفع المؤمنين."

(کتاب الایمان ، باب بیان کون النهی من الایمان جلد 2 ص: 22 , 23 ط: داراحیاء التراث العربي)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں