بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوا ساز کمپنیوں کا اپنی کمپنی کی دوا تجویز کرنے پر ڈاکٹر کو مراعات دینا


سوال

دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹر کو عمرہ کرانے یا کسی جگہ کا فیملی سمیت ٹور کرانے یا کوئی مہنگی چیز لے کر دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جب کہ یہ سب اس لیے ہو کہ ڈاکٹر ان کی کمپنی کی دوا مریض کو دے گا اور مریض کو اُس کی ضرورت بھی ہو گی اور دوا بھی مہنگی نہ ہو گی اور اچھی ہو گی۔

جواب

 ڈاکٹر کا مریض کی مصلحت اور اس کی خیر خواہی کو مد نظر رکھنا شرعی ، اخلاقی   اور اس کی پیشہ وارنہ ذمہ داری ہے، اس بنا پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملہ کی وہ صورت  جو مریض کی مصلحت اور فائدہ کے خلاف ہو یا جس میں ڈاکٹر اپنے پیشہ یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا مرتکب ہوتا ہو، شرعاً درست نہیں ہے ،  ڈاکٹر  اگراپنے مالی فائدے یا کسی اور قسم کی ذاتی منفعت  کو ملحوظ رکھتا ہے اور مریض کی مصلحت اور فائدے سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کے لیے علاج/دوا تجویز کرتا ہے تو یہ امانت داری کے خلاف ہے اور اس میں ڈاکٹر گناہ گار ہوگا،  اور چوں کہ وہ اپنی علم فہم اور تجربہ کی بنیاد پر مریض کے لیے جو دوا تجویز کرے گا وہ اس کی پیشہ وارنہ ذمہ داری ہے اور اس کی وہ مریض سے  فیس بھی وصول کررہا ہے،  تو اس  کے لیے اپنی واجبی ذمہ داری کے ادائیگی  پر الگ سے دوا ساز  کمپنی سے  کسی بھی نام سے کمیشن لینا یا کمپنی کا کمیشن دے کر اپنی دوائیاں لکھوانا  جائز نہیں ہے۔

نیز اگر دوا ساز کمپنی کی دوا مریض کے لیے مفید اور موزوں ہوں تو  بھی کمپنی کا   ڈاکٹر  کو صرف اس لیے مختلف مراعات  دینا تاکہ وہ مریض کے لیے صرف اسی کمپنی کی دوا  تجویز کرے ، کسی اور کمپنی کی دوا تجویز نہ کرے، درست نہیں ہے،  یہ ایک قسم کی رشوت ہے، اس کے لین دین سے اجتناب کرنا چاہیے، ڈاکٹر کو چاہیے  کہ وہ  علم، فہم اور تجربہ کی بنیاد پر ، مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے  ، پوری  دیانت داری کے ساتھ مریض کے لیے وہ  دوا تجویز کرے جو اس کے لیے مفید اور موزوں ہو، مراعات کے حصول کے لیے کسی خاص کمپنی ہی کی دوا تجویز نہ کرے۔

حدیثِ پاک میں ہے:

"عن جرير بن عبد الله قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة وإيتاء الزكاة والنصح لكل مسلم. "متفق عليه

(كتاب الآداب ،باب الشفقة و الرحمة، ج: 3، ص: 1387، ط: المكتبة الإسلامي)

ایک اور حدیثِ  مبارک  میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إن ‌الدين ‌النصيحة، إن ‌الدين ‌النصيحة، إن ‌الدين ‌النصيحة». قالوا: لمن يا رسول الله؟ قال: لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين، وعامتهم".

(کتاب البیعه، النصيحة للإمام، ج: 7، ص: 189، ط: مؤسسة الرسالة)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"عن تميم الداري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال الدين النصيحة قلنا لمن قال لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم) هذا حديث عظيم الشأن وعليه مدار الإسلام.....وأما نصيحة عامة المسلمين وهم من عدا ولاة الأمر فإرشادهم لمصالحهم في آخرتهم ودنياهم وكف الأذى عنهم فيعلمهم ما يجهلونه من دينهم ويعينهم عليه بالقول والفعل وستر عوراتهم وسد خلاتهم ودفع المضار عنهم وجلب المنافع لهم وأمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر برفق وإخلاص والشفقة عليهم وتوقير كبيرهم ورحمة صغيرهم وتخولهم بالموعظة الحسنة وترك غشهم وحسدهم وأن يحب لهم ما يجب لنفسه من الخير ويكره لهم ما يكره لنفسه من المكروه والذب عن أموالهم وأعراضهم وغير ذلك من أحوالهم بالقول والفعل وحثهم على التخلق بجميع ما ذكرناه من أنواع النصيحة وتنشيط هممهم إلى الطاعات....قال والنصيحة لازمة على قدر الطاقة إذا علم الناصح أنه يقبل نصحه ويطاع أمره وأمن على نفسه المكروه فإن خشي على نفسه أذى فهو في سعة."

(كتاب الإيمان، باب بيان أن الدين النصيحة، 37،39/2، ط: دار إحياء التراث العربي)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ‌ليحكم ‌له أو يحمله على ما يريد."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 285/6، ط: دار الكتاب الإسلامي)

وفیہ أیضاً:

"وبذل المال فيما هو مستحق عليه حد الرشوة اهـ."

(3 / 162، كتاب النكاح، باب المهر، ط:  دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں