بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دورِ حاضر میں رفع یدین کا حکم


سوال

رفعِ  یدین کے بارے میں معلومات درکار ہیں، احادیث کی روشنی میں جواب درکار ہے، براۓمہربانی رہنمائی فرمائیں کہ دور حا ضر میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسئلہ رفع یدین وجوب وعدم وجوب سے متعلق نہیں ہے  بلکہ صرف سنیت وافضیلت سے متعلق ہے اس لئے اس مسئلہ میں شدت اختیار کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے، بہرحالرفع یدین سے متعلق عرض یہ ہےکہ  ابتدائی زمانہ میں نماز کے اندر متعدد موقعوں پررفع یدینکرنا سنت تھا، مثلاً: رکوع میں جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت، سجدہ میں جاتے وقت، سجدہ سے اٹھتے وقت، دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے وقت اور سلام کے وقت،پھربعد میں   تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ دیگر تمام مواقع پر  رفعِ یدین کا حکم منسوخ ہو گیا؛ لہذا اب وتر اور عیدین  کی نماز کے  علاوہ  عام نمازوں میں  صرف تکبیر تحریمہ کہتے  وقت ہی ”رفعِ یدین“   مسنون ہے، اور   یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام ”رفع یدین“ کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے،اسی وجہ سے مجتہدینِ امت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہواہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترکِ رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیاہے،کئی اکابر صحابہ کرام کامعمول ترکِ رفع کاتھا، اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے، اس لیے احناف کے نزدیک دورِ حاضر میں بھی  ترکِ رفع یدین ہی  سنت ہے۔

ابوداؤد شریف میں ہے:

  "حدّثنا إسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یزید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول  الله صلی  الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما."
ترجمہ: ”حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔“

( کتاب الصلوۃ، باب رفع الیدین فی الصلوۃ، رقم الحدیث:721، ج1، ص191، ط: المکتبة العصریة)

تفصیل کے لیے ہماری ویب سائٹ پر دیکھیے فتوی:

کیا رفع یدین کا حکم اور اس کا منسوخ ہونا صحیح بخاری میں موجود ہے ؟ / ترک رفع یدین کے دلائل

اور یہ بھی ملاحظہ کیجیے:

رفع یدین کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں