بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دائم نام رکھنے کاحکم


سوال

دائم نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

دائم یہ  عربی زبان کا لفظ ہے، (اور ”دوم“ مادے سے ہے) اس کے مختلف معانی ہیں: ہمیشہ رہنا، دیر تک رہنا، ثابت رہنا،  ٹھہرنا، گھومنا۔ (المنجد۔ مصباح اللغات)؛  لہذا دائم کے معنی:  دیر تک رہنے والے، ثابت رہنے والے، یا ساکن اور ٹھہرے ہوئے کے ہیں۔ یہ نام رکھنا جائز ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

اگر یہ شبہ ہو کہ ”دائم“ کے معنی ہیں : ہمیشہ رہنے والا، اور ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اللہ رب العزت کی ہے تو اس کا جواب ہے کہ :

1۔ دائم کے صرف یہی معنی نہیں ہیں، بلکہ اس کے علاوہ بھی معانی ہیں، جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا۔

2۔ اس میں ہمیشہ سے ہونے اور ہمیشہ تک رہنے کا معنیٰ نہیں ہے، اللہ پاک نے اہلِ جنت کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے، اور اہلِ جنت انسان ہی ہیں۔جیساکہ ’’خالد‘‘ (بمعنٰی ہمیشہ رہنے والا) نام رکھا جاسکتاہے، اور  مشہور صحابی رضی اللہ عنہ کا نام ہے۔

3۔ یہاں بطور نیک فالی کے قائم دائم رہنا مراد ہے نہ کہ اپنی ذات کے اعتبار سے۔  اپنی ذات کے اعتبار سے ازلی اور ابدی ذات  صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

لہذا  دائم نام رکھنا جائز ہے،البتہ بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین یا نیک لوگوں کے نام پر کوئی نام رکھا جائے۔

تاج العروس میں ہے:

"( والدَّوْمُ: الدَّائِم) من دَامَ الشَّيءُ يَدُومُ إِذا طَالَ زَمانُه، (أو) من (دَامَ) الشَّيءُ إِذا (سَكَن، وَمِنْه: الماءُ! الدَّائِم)، والظّلّ الدَّائِم، وَصَفُوهُما بالمَصْدَر، وَهُوَ مَجاز. وَمِنْه الحَدِيث: "نَهَى أَن يُبالَ فِي المَاءِ الدَّائِم، ثمَّ يُتَوضَّأ مِنْهُ" وَهُوَ المَاءُ الرَّاكِد السَّاكِن".

 (ج،32 ،ص، 180،ط:دار الھدایة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں