میرے والدصاحب کاانتقال ہوا ہے ،ورثاء میں دوبیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں،پوچھنا یہ ہے کہ مرحوم والد کے ترکہ میں سے ہر ایک کاکتنا حصہ بنتا ہے؟کل جائیداد ڈیڑھ کروڑ کی ہے،میرے پاس اپنے بھائی اور بہنوں کے لیے فی الوقت نقد رقم نہیں ہے میں اگر مذکورہ جائیداد کی موجودہ قیمت لگاکر اس کے حساب سے بھائی اور ہر ایک بہن کی رضامندی سے میں ان کو اپنے حصے کی رقم دو یاتین سال کے بعد اداکروں کیا شریعت مجھے اس کی اجازت دیتی ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں اگر سائل کے دیگر ورثاءموجودہ قیمت کے اعتبار سے اپنا حصہ متعین کرکے دو یاتین سال کے بعد رقم لینے پر راضی ہیں تو پھر ادائیگی کی مدت اور ادائیگی کا طریقہ کار باہمی رضامندی سے طے کرنے کی صورت میں ایسا کرنا شرعاً جائز ہے،ورثاء راضی نہ ہوں اور وہ اپنا حصہ فوری طلب کریں تو جائیداد فروخت کرکے ان کا حصہ دینا ضروری ہے ،باقی مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم والد کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اس کی کل مال سے ادائیگی کے بعد ،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو اس کو ایک تہائی ترکہ سے نافذکرنے کے بعد مابقیہ ترکہ منقولہ اور غیر منقولہ کو 10 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کے ہرایک بیٹے کو 2۔2حصے اور مرحوم کی ہرایک بیٹی کو1۔1حصہ ملے گا۔
صورت ِتقسیم یہ ہے:
میت(مرحوم والد):10
بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی 15000000(ڈیڑھ کروڑمیں سے ) مرحوم کے ہرایک بیٹے کو3000000(تیس لاکھ روپے)،اورمرحوم کی ہرایک بیٹی کو1500000(پندرہ لاکھ روپے )ملیں گے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101025
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن