بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دسواں چالیسواں کرنے کا حکم


سوال

ایک عورت فوت ہوئی ہے ،اس کے سب بچے بچیاں جوان تھے، اس کی یہ وصیت تھی کہ میرے فوت ہونے کے بعد دسواں، چالیسواں جیسی رسومات نہ کی جائیں ،لیکن اب اس کا ایک بیٹا یہ کہتا ہے کہ میں نے  دسواں چالیسواں کرنا ہے، اب اس کا کیا حکم ہے اگرنا جائز ہے تو اس کا گناہ کس کو ہوگا،برائے مہربانی تفصیلا اور مدلل جواب ارسال فرمائیں ؟

جواب

واضح رہےکہ تیجا، دسواں، بیسواں ،چالیسواں کرنا  اور اس کو  دین کا حصہ سمجھنا بدعت ہے،نیز مذکورہ مرحومہ نے بھی جب یہ  وصیت کی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد  یہ رسومات نہ کی جائیں ، تو   مرحومہ والدہ  کی یہ  وصیت  در حقیقت  شریعت  پر  عمل کرنے اور بدعات سے بچنے کی ہدایت ہے، اس پر عمل کرتے ہوئے اور اپنی والدہ کے  ساتھ وفاداری کا معاملہ  کرتے ہوئے  مرحومہ کے بیٹوں کے  لیے تیجا ،دسواں ،  بیسواں جیسی رسومات سے  اجتناب کرنا اور زیادہ ضروری ہے،  مرحومہ کے ایصال ثواب کے  لیے جائز طریقہ اختیار کیا جائے،  جیسے   قرآن کریم کی تلاوت بغیر دن یا تاریخ کے تعین کے بغیر صدقہ وخیرات کی جائیں اور  غریب رشتہ داروں کی ضروریات پوری کی جائیں وغیرہ۔

حاشیہ ابن عابدین میں ہے :

"یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة، وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص".

( کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة،‌‌مطلب في الثواب على المصيبة،ج:2،ص:240،ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں