بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دستاویز سے دعوی کا ثبوت


سوال

کیاوراثت کی جائداد کی خرید  وفروخت میں ایک خریدار  وارث کا اپنی مرضی کی بنائی ہوئی دستاویز کو اپنے دعوی کے طور پر پیش کرنا جو متنا زعہ ہے ،یعنی دیگر ورثاء  کو اس دستاویز پر اعتراض ہو ،تو کیا خریدا ر وارث کا اپنے حقِ دعوی میں محض دستاویز پیش کرنا بغیر دو عادل گواہوں کی موجودگی کے،کیاوارث کی یہ بات شرعی اعتبا ر سے درست تسلیم کی جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں محض دستاویز کو اپنے دعوی کے ثبوت پر پیش  کرنا جب کہ دیگر ورثاء کو اس دستاویز پر شک وشبہ بھی ہےمعتبر نہیں،بلکہ اس کے شرعی حجت بننے کےلیے گواہوں کا  ہونا ضروری ہے،تاہم اس دستاویز کی بنیاد پر   مدعی  سے سوالات کیے جائیں اور معاملہ کی گہرائی تک پہنچا جائے۔اور بہتر یہ ہے کہ کسی مفتی صاحب کے پاس حاضر ہوکر اپنے درمیان فیصلہ کرایاجائے۔

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

المادة (1814) "يضع القاضي في المحكمة دفترا للسجلات ويقيد ويحرر في ذلك الدفتر الإعلامات والسندات التي يعطيها بصورة منتظمة سالمة عن الحيلة والفساد ويعتني بالدقة بحفظ ذلك الدفتر و إذا عزل سلم السجلات المذكورة إلى خلفه إما بنفسه أو بواسطة أمينه."

(الکتاب الرابع عشرفی حق الدعوی، الباب الاول فی حق القضاۃ، 369، ط: نورمحمد،كراتشي)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

المادۃ(1822) " إذا كان الإعلام أو السند موافقا لأصوله إلا أنه غير سالم من شبهة التزوير والتصنيع فتطلب البينة، وهذه البينة إما أن تكون لإثبات أصل الحق وهي ظاهرة، وإما أن تكون لإثبات مضمون الحجة والإعلام."

(الکتاب السادس عشر القضاء، الفصل الرابع ویتعلق بصورۃالمحاکمۃ، 653/4، ط: دار الجيل)

رسائل ابن عابدين ميں ہے:

" وحاصله أن ما مر من قولهم لا يعتمد علی الخط ولا يعمل به مبني علی أصل المنقول في المذهب قبل العرف ولما حدث العرف في الاعتماد علی الخط والعمل به في مثل ھذہ المواضع أفتوا به ."

وفیہ ایضا:

"فالحاصل أن المدار علی انتفاء الشبھة ظاھرا وعليه فما يوجد في دفاتر التجار في زماننا إذا مات أحدھم وقد حرر بخطه ما عليه في دفترہ الذي يقرب من اليقين أنه لا يکتب فيه علی سبيل التجربة والھزل يعمل به والعرف جار بينھم في ذالك، فلولم يعمل به يلزم ضياع أموال الناس إذغالب بياعاتھم بلاشھود خصوصًا ما يرسلونه إلٰی شرکائھم و أمنائھم في البلاد لتعذر الأشھاد في مثله ، فيکتفون بالمکتوب في کتاب أو دفتر ويجعلونه فيما بينھم حجة عند تحقق الخط أو الختم."

(رسالة: نشر العرف فی بناء بعض الأحکام علی العرف، 144/2، ط: رشیدیة)

فتاویٰ حقانیہ میں ہے:

’’ازروئے شریعت جو دستاویزات تغیر و تبدل سے محفوظ ہوں، ان کو اعتبار دے کر اُن پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں چونکہ مکر و فریب نے معاشرہ میں اکثر لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کی وجہ سے سچے اور جھوٹے کاغذات میں تمییز مشکل ہو گئی ہے، اس لیے اگر تحریری معاہدہ پر با قاعدہ گواہ موجود ہوں تو اس کو اعتبار دیا جائے گا، ورنہ نہیں۔‘‘    

           (فتاویٰ حقانیہ ،   ج:۵،  ص: ۳۶۴ ،  ط:  جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں