بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دسترخوان پر ہاتھ دھونا


سوال

 ہمارے یہاں یہ رواج ہے کہ جب کھانے کے لیے  دسترخوان بچھا یا جا تا ہے تو کھانے کے  لیے ہاتھ بیسن وغیرہ پر نہیں دھویا جاتا ہے،  بلکہ اسی دسترخوان پر پلیٹ نما جیسا کوئی برتن رکھا جاتا ہے اور پھر اسی برتن کے اوپر ہاتھ دھویاجاتاہے جس کا پانی اسی برتن میں گرتا ہے اور اس کی چھینٹیں دسترخوان پر نہیں پڑتی ہیں۔ اب چند سالوں سے  یہاں کے کچھ علماء یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح دسترخوان پر ہاتھ دھوناجائز نہیں،  چاہے اس کی چھینٹیں دسترخوان پر پڑیں  یا نہیں۔   پوچھنا یہ ہے کہ شریعت کی رو سے دسترخوان پر ہاتھ دھونا جائز ہے یا نہیں؟  اور اس طرح ہاتھ دھونے کی ممانعت کسی حدیث میں آئی ہے کیا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کھانے کے آداب میں سے ہے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں۔ ہاتھ بیسن میں دھوئے جائیں یا دسترخوان پر کسی برتن میں، اس بارے میں کوئی خاص کیفیت متعین نہیں ہے؛ لہذا اگر کوئی دسترخوان پر دیگر آداب کی رعایت کرتےہوئے ہاتھ دھو نا جائز ہے۔

حدیثِ پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے ایک موقع پر دسترخوان پر کھانا تناول فرمانے کے بعد  وہیں پانی منگوایا اور  ہاتھ  (انگلیوں کے کنارے جو گوشت کی چکناہٹ سے متاثر ہوئے تھے) دھوکر کلی فرمائی،  پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھانے چلے گئے۔

امام غزالی رحمہ اللہ نے اجتماعی کھانے کے آداب میں ذکر کیا ہے کہ برتن میں ہاتھ دھونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،  سلفِ صالحین مہمانوں کے اکرام میں ایسا کیا کرتے تھے،  چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ  نے  حضرت ثابت بنانی  رحمہ اللہ کے سامنے ہاتھ دھونے کے لیے برتن پیش کیا تھا۔ اسی طرح ہارون رشید نے حضرت ابو معاویہ ضریر کے ہاتھ اکراماً برتن میں دھلائے تھے۔ نیز جب امام شافعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ  کے یہاں مہمان بنے تو امام مالک رحمہ اللہ  نے امام شافعی رحمہ اللہ  کا بھی اسی طرح اکرام کیا تھا، باوجود اس بات کے کہ  امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کے استاذ تھے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1 / 370):

(ثم دعا بماء فتمضمض فاه) : أي: حرك ماء فمه، وفي نسخة: فمضمض. في القاموس: المضمضة تحريك الماء في الفم، وتمضمض للوضوء مضمض (وغسل أطراف أصابعه) : أي: محل الدسومة والتلوث على قدر الحاجة لا على قصد التكبير (ثم قام فصلى."

إحياء علوم الدين (2 / 7):

الخامس: أن غسل اليد في الطست لا بأس به وله أن يتنخم فيه إن أكل وحده وإن أكل مع غيره فلا ينبغي أن يفعل ذلك فإذا قدم الطست إليه غيره إكراما له فليقبله اجتمع أنس بن مالك وثابت البناني رضي الله عنهما على طعام فقدم أنس الطست إليه فامتنع ثابت فقال أنس إذا أكرمك أخوك فاقبل كرامته ولا تردها فإنما يكرم الله عز وجل وروي أن هارون الرشيد دعا أبا معاوية الضرير فصب الرشيد على يده في الطست فلما فرغ قال يا أبا معاوية تدري من صب على يدك فقال لا قال صبه أمير المؤمنين فقال يا أمير المؤمنين إنما أكرمت العلم وأجللته فأجلك الله وأكرمك كما أجللت العلم وأهله ولا بأس أن يجتمعوا على غسل اليد في الطست في حالة واحدة فهو أقرب إلى التواضع وأبعد عن طول الإنتظار فإن لم يفعلوه فلا ينبغي أن يصب ماء كل واحد بل يجمع الماء في الطست قال صلى الله عليه وسلم أجمعوا وضوءكم جمع الله شملكم۔ قيل إن المراد هذا وكتب عمر بن عبد العزيز إلى الأمصار لا يرفع الطست من بين يدي قوم إلا مملوءة ولا تشبهوا بالعجم وقال ابن مسعود اجتمعوا على غسل اليد في طست واحد ولا تستنوا بسنة الأعاجم والخادم الذي يصب الماء على اليد كره بعضهم أن يكون قائما وأحب أن يكون جالسا لأنه أقرب إلى التواضع وكره بعضهم جلوسه فروي أنه صب الماء على يد واحد خادم جالسا فقام المصبوب عليه فقيل له لم قمت فقال أحدنا لا بد وأن يكون قائما وهذا أولى لأنه أيسر للصب وللغسل وأقرب إلى تواضع الذي يصب وإذا كان له نية فيه فتمكينه من الخدمة ليس فيه تكبر فإن العادة جارية بذلك ففي الطست إذا سبعة آداب أن لايبزق فيه وأن يقدم به المتبوع وأن يقبل الإكرام بالتقديم وأن يدار يمنة وأن يجتمع فيه جماعة وأن يجمع الماء فيه وأن يكون الخادم قائما وأن يمج الماء من فيه ويرسله من يده برفق حتى لايرش على الفراش وعلى أصحابه وليصب صاحب المنزل بنفسه الماء على يد ضيفه هكذا فعل مالك بالشافعي رضي الله عنهما في أول نزوله عليه وقال: لايروعك ما رأيت مني فخدمة الضيف فرض." 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں