بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

دستانے پہن کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

مرد کا دستانے پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ ہاتھوں میں دستانے پہن کر نماز پڑھنا درست ہے بشرطیکہ وہ دستانے صاف ہوں اور  نرم ہوں (یعنی  انہیں پہنے ہوئے انگلیاں حرکت کرسکیں)  کہ سجدہ  اس میں صحیح طریقہ سے ہوسکے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"حضرت عبداللہ بنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ  آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے:  پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا، اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر اور یہ کہ ہم اپنے کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔"

(صحیح البخاری، باب السجود علی سبعۃ اعظم، ج:1، ص:162، ط:دارطوق النجاۃ)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن وائل بن حجر: «أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه حين دخل في الصلاة كبر ثم التحف بثوبه، ثم وضع يده اليمنى على اليسرى، فلما أراد أن يركع أخرج يديه من الثوب، ثم رفعهما وكبر فركع، فلما قال: " سمع الله لمن حمده " رفع يديه، فلما سجد، سجد بين كفيه» ، رواه مسلم.

(ثم التحف بثوبه) ، أي: تستر به يعني: أخرج يديه من الكم حين كبر للإحرام، ولما فرغ من التكبير أدخل يديه في كميه، قال ابن الملك: ولعل التحاف يديه بكميه لبرد شديد، أو لبيان أن كشف اليدين في غير التكبير غير واجب.

قلت: فيه أنه عند التكبير أيضا غير واجب، بل مستحب، وقال ابن حجر: يحتمل أنه بعد تكبيرة الإحرام سقط ثوبه عن كتفه فأعاده، ويحتمل أنه كان نسيه ثم تذكره بعد إحرامه فأخذه والتحف به، قلت: الاحتمال الثاني بعيد جدا مع احتياجه إلى معالجة كثيرة، قال ويؤخذ من الاحتمال الأول أنه يسن لمن فاتته سنة في صلاته تداركها إذا أمكنه بفعل قليل، فإن الصلاة في الثوب أي الرداء سنة، ومن الثاني أنه يسن لمن ترك سنة من سنن الصلاة المتقدمة عليها تداركها، ولو في الصلاة إن أمكن بفعل قليل أيضا، ومن ثم كان الذي يتجه فيمن دخل في الصلاة بلا سواك أنه يسن له تداركه فيها بفعل قليل اهـ."

(کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلوۃ، ج:2، ص:657، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں