بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دس سالوں سے شوہر کابیوی کےنان نفقہ ادا نہ کرنےکاحکم


سوال

میری شادی 2010  میں ہوئی ، میں اپنے شوہر کے ساتھ صرف دوسال تک رہی اوران دوسالوں میں ، اخراجات میں خود ہی برداشت کرتی رہی ، رہائش کھا نا وغیر ہ کسی بھی چیز کا بندوبست انہوں نے  نہیں کیا ان دوسالوں میں ، اس کے بعدوہ بلااطلاع پنجاب چلاگیا اور کوئی رابطہ نہیں کررہاہے ، تقریبا دس سال سے کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہورہاہے اور نہ ہی اس نے رابطہ کی کوشش کی ، ایک دوبار فون اٹھاتے ہی کاٹ دیا ، ان دسالوں میں کوئی نان ونفقہ اور رہائش  نہیں دیا،کیامیرانکاح ان سے قائم ہے یانہیں ؟کیامیں دوسری جگہ شادی کرسکتی ہوں ؟کیانکاح ختم کرنے کاکوئی طریقہ ہے اوردوسری جگہ شادی کرنے کا؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کا سائلہ کو نان نفقہ اور رہائش  نہ دینا شرعاجائزنہیں  ، سائلہ کے شوہر نے سائلہ کو جو دس سال تک نان نفقہ اور رہائش نہیں دیا اور نہ ہی شوہر کوئی رابطہ کررہاہے تو اس صورت میں سائلہ کسی مسلمان جج کی عدالت سے  نان نفقہ  نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ  دائر کرسکتی ہے،جس کاطریقہ یہ ہے کہ  سائلہ اولاً عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے ،اس کے بعد شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کے نان نفقہ  نہ دینے کو ثابت کرے،اگر سائلہ عدالت میں گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عدالت اس نکاح کو فسخ کردے ،جس کے بعد عدت گزار کر سائلہ  کادوسری جگہ نکاح کرنا  جائز  ہوگا اور عدالت کے بلانے اور سمن جاری  کرنے کے باوجود شوہر اگر حاضر نہ ہو تو عدالت کو  شوہر کی غیر موجودگی میں بھی فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوگا۔

الشرح الکبیر وحاشیۃ الدسوقی میں ہے:

" (ووعظ) الزوج (من نشزت) النشوز الخروج عن الطاعة الواجبة كأن منعته الاستمتاع بها أو خرجت بلا إذن لمحل تعلم أنه لا يأذن فيه أو تركت حقوق الله تعالى كالغسل أو الصلاة ومنه إغلاق الباب دونه كما مر والوعظ التذكير بما يلين القلب لقبول الطاعة واجتناب المنكر (ثم) إذا لم يفد الوعظ (هجرها) أي تجنبها في المضجع فلا ينام معها في فرش لعلها أن ترجع عما هي عليه من المخالفة (ثم) إذا لم يفد الهجر (ضربها) أي جاز له ضربها ‌ضربا غير مبرح وهو الذي لا يكسر عظما ولا يشين جارحة ولا يجوز الضرب المبرح ولو علم أنها لا تترك النشوز إلا به فإن وقع فلها التطليق عليه والقصاص ولا ينتقل لحالة حتى يظن أن التي قبلها لا تفيد كما أفاده العطف بثم ويفعل ما عدا الضرب ولو لم يظن إفادته بأن شك فيه لعله يفيد لا إن علم عدم الإفادة وأما الضرب فلا يجوز إلا إذا ظن إفادته لشدته فقوله (إن ظن إفادته) قيد في الضرب دون الأمرين قبله۔"

(الکلام علی احکام النشوز ج2 ص 343 ط:دارالفکر)

حاشیۃ الصاوی علی الشرح الصغیر میں ہے:

"(ثم) إن لم يفد الهجر (ضربها) ‌ضرباً غير مبرح ولا يجوز الضرب المبرح وهو الذي يكسر عظماً أو يشين لحماً، ولو علم أنها لا ترجع عما هي فيه إلا به، فإن وقع فهو جان فلها التطليق والقصاص ومحل جواز الضرب (إن ظن إفادته) وإلا فلا يضرب، فهذا قيد في الضرب دون ما قبله لشدته (وبتعديه) أي الزوج على الزوجة بضرب لغير موجب شرعي، أو سب كلعن ونحوه، وثبت ببينة أو إقرار (زجره الحاكم بوعظ فتهديد) إن لم ينزجر بالوعظ، (فضرب إن أفاد) الضرب أي ظن إفادته وإلا فلا، وهذا إن اختارت البقاء معه (ولها التطليق) بالتعدي إذا ثبت (وإن لم يتكرر) التعدي منه عليها، وليس من الضرر منعها من الحمام والنزاهة وضربها ‌ضرباً غير مبرح على ترك الصلاة ونحوها، بخلاف المبرح كما تقدم،"

(باب فی النکاح  ج1 ص439 ط:مکتبۃ مصطفیٰ)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الانفاق  ففی مجموع الامیر ما نصہ : ان منعھا   نفقۃ الحال فلہا القیام فان لم   یثبت عسرہ  انفق او طلق  و الا طلق علیہ  ، قال محشیہ : قولہ   والا طلق علیہ ای   طلق علیہ الحاکم من غیر تلوم…..الی ان قال: وان تطوع بالنفقۃ قریب اواجنبی فقال ابن القاسم:لہا ان تفارق  لان الفراق قد وجب لہا،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لہا لان سبب الفراق  ہو عدم النفقۃ   قد انتہی وہو الذی   تقضیہ المدونۃ  کما قال ابن المناصب   ، انظر الحطاب، انتہی۔"

(حیلہ ناجزہ ص: 73،فصل  فی حکم زوجۃ المتعنت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں