ایک صاحب نے نقدی (پیسوں)کی صورت میں قرض لیا، جس کووہ دس سال بعد واپس کررہاہے، لیکن یہ واپسی کرنا پیسوں کےعلاوہ ڈالر یا کسی اور چیز کی شکل میں واپس کر رہا ہے تو کس حساب سے واپس کرے گا، ڈالر کی آج کی قیمت کا اعتبار ہوگا یا دس سال پہلے جو ڈالر کی قیمت تھی اس کا اعتبار ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ میں قرض چونکہ روپیہ کی صورت میں لیاتھا،اس لئے قرض کی ادائیگی میں اتنی ہی رقم لوٹانا لازم ہے،خواہ روپیہ کی قدر کم ہوگئی ہو ، البتہ اگرفریقین اس بات پرراضی ہوں کہ قرضہ ڈالرکی صورت میں واپس کیاجائےتوقرضہ کی رقم کےعوض آج جتنے ڈالربنتے ہیں اتنے ڈالراداکرنے ہوں گے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة........... (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا....... (استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه ذكره في المبسوط من غير خلاف."
(کتاب البیوع،فصل فی القرض،ج5،ص161،ط:سعید)
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ:
"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".
(باب القرض،ج:1،ص:279،ط:دارالمعرفه)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"مطلب في قولهم الديون تقضى بأمثالها...قد قالوا إن الديون تقضى بأمثالها...الخ."
(کتاب الرھن، فصل في مسائل متفرقة،ج:6،ص:525،ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144610100526
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن